رواں مالی سال کے اختتام سے قبل اپریل کے مہینے میں برآمدات میں 17.4فیصد کی کمی اور درآمدات میں 16 فیصد سے زائد کے اضافے نے برآمدات بڑھانے اور تجارتی خسارہ کم کرنے کی کوششوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ان اعدادو شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ میں نہروں کے مسئلے پر ہونیوالے احتجاج کے باعث اپریل کے مہینے میں سڑکوں کی بندش سے برآمدات کی ترسیل کس حد تک متاثر ہوئی ہے۔ اس احتجاج کے منفی اثرات آنیوالے مہینوں کی برآمدات پر بھی مرتب ہونے کا امکان ہے کیونکہ طویل احتجاج کے باعث برآمدات کی ترسیل میں آنے والا تعطل تاحال مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ۔
دوسری طرف کراچی کی بندرگاہوں پر برآمدی کنٹینرز کے بڑھتے ہوئے رش اور یورپ و امریکا سمیت اہم عالمی منڈیوں کیلئےٹرانزٹ میں تاخیر بھی برآمدات میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بڑی شپنگ لائنز کے جہاز یا تو پاکستان کا رخ کرنے سے گریز کر رہے ہیں یا بندرگاہوں سے برآمدی کنٹینرز لئے بغیر ہی واپس جا رہے ہیں جسکی وجہ سے برآمدی آرڈرز کی ترسیل میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اس وقت صرف چھوٹے فیڈر جہاز ہی پاکستانی بندرگاہوں پر آ رہے ہیں جو کولمبو کے راستے برآمدی سامان کی بیرون ملک ترسیل کر رہے ہیں۔ یہ روٹ زیادہ طویل ہے اوراس سے برآمدکنندگان کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اور انہیں بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے جبکہ عالمی منڈی میں پاکستان کی تجارتی ساکھ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح درآمدی مال سے لدے کنٹینرز بھی بڑی تعداد میں بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے سپلائی چین متاثر ہو رہی ہے۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ حکومت فوری طور پر عالمی شپنگ لائنز کے ساتھ رابطہ کرکے مین لائن ویسل کالز کو بڑھائے اور مستقبل میں اس بحران سے نمٹنے کیلئے فوری و طویل المدت پالیسی تشکیل دے کر عملی اقدامات کا آغاز کرے۔
علاوہ ازیں ایکسپورٹ فیسیلٹیشن اسکیم میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرف سے دو ماہ قبل جو یکطرفہ تبدیلیاں کی گئی تھیں ان پر نظرثانی کا وعدہ بھی تاحال پورا نہیں ہوا ۔ اس حوالے سے وزیر اعظم نے جو کمیٹی تشکیل دی تھی اس نے دو ہفتوں میں ایکسپورٹ فیسیلٹیشن اسکیم کے فریم ورک میں خرابیوں کی نشاندہی کرکے اس کے ازالے کیلئےسفارشات پیش کرنا تھیں۔ علاوہ ازیں اس کمیٹی نے یہ بھی تعین کرنا تھا کہ آیا یہ اسکیم مقامی سپلائیز کے مقابلے میں غیر متناسب طور پر درآمدات کے حق میں ہے یا نہیں اور اس اسکیم کے برآ مدی شعبہ کو سپلائی کی جانے والی انٹر میڈیٹ گڈز کے مقامی مینو فیکچرز پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تاہم اس کمیٹی کی طرف سے بھی تاحال کوئی واضح پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے جسکی وجہ سے انڈسٹری میں مایوسی اور بے یقینی بڑھ رہی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس کمیٹی میں نجی شعبے سے جن اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا ہے ان میں نٹ وئیر سیکٹر کی نمائندہ سب سے بڑی تنظیم پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کو نمائندگی ہی نہیں دی گئی حالانکہ یہ سیکٹر ٹیکسٹائل برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے اور اس کی برآمدات میں اضافے کی شرح بھی دیگر شعبوں سے زیادہ ہے۔ اس لئے حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ اس کمیٹی میں نٹ وئیر سیکٹر کی نمائندگی یقینی بنائے تاکہ جو بھی سفارشات تیار ہوں انہیں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی حمایت حاصل ہو سکے۔
اسی طرح ایک اور مسئلہ جو ایکسپورٹ فیسیلٹیشن اسکیم سے جڑا ہوا ہے وہ مقامی یارن پر عائد سیلز ٹیکس کا نفاذ ہے جسکی وجہ سے مقامی سپننگ انڈسٹری کو بقا کا خطرہ درپیش ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ایکسپورٹ فیسیلٹیشن اسکیم 2021ء میں متعارف کروائی گئی تھی اس کا بنیادی مقصد برآمدات میں اضافے کے لئے ویلیو ایڈڈ مصنوعات بنانے والے برآمد کنندگان کی عالمی منڈی میں مسابقت کو بہتر بنانا تھا۔ اس اسکیم کے تحت برآمد کنندگان کو ڈیوٹی اور ٹیکس فری درآمدات کے ساتھ ساتھ تیار شدہ مصنوعات میں استعمال ہونے والے مقامی ان پٹ سامان کی خریداری پر بھی سیلز ٹیکس کی ادائیگی سے استثنیٰ حاصل تھا۔ تاہم گزشتہ سال سے ایکسپورٹ فیسیلٹیشن اسکیم کے تحت ایکسپورٹرز پر بھی تیار شدہ مصنوعات میں استعمال ہونے والے مقامی ان پٹ سامان کی خریداری پر سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔
اس اسکیم کے تحت مقامی مارکیٹ سے خریداری پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کا سب سے زیادہ منفی اثر سپننگ انڈسٹری پر پڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیداواری لاگت کو کم رکھنے کے لئے زیادہ تر ایکسپورٹرز یارن بیرون ملک سے درآمد کر رہے ہیں جو کہ معیار میں مقامی یارن سے بہتر اور قیمت میں کم ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب حکومت سے ایکسپورٹ فیسیلٹیشن اسکیم کے تحت یارن کی درآمد پر پابندیاں عائد کرنے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں جس سے برآمدات میں اضافے کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے درآمدی یارن کے مقابلے میں مقامی یارن کی کھپت بڑھانے کے لئے بھی ایسی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس سے مسئلہ بھی حل ہو جائے اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو بھی اضافی مالی بوجھ برداشت نہ کرنا پڑے۔ اس حوالے سے بہتر پالیسی یہ ہو سکتی ہے کہ مقامی یارن انڈسٹری کو تحفظ دینے کے لئے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے لئے لوکل یارن کی خریداری پر سیلز ٹیکس کا نفاذ ختم کر دیا جائے۔ اس سے ناصرف سپننگ انڈسٹری کو بچایا جا سکتا ہے بلکہ برآمدات کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے پاس ٹیکسٹائل برآمدات میں فوری طور پر سات سے آٹھ ارب ڈالر اضافے کے مواقع موجود ہیں۔ تاہم اس کیلئے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل کو حل کرنا اور دیگر معاملات کو بہتر بنانا ضروری ہے۔