جون کے گرم ترین مہینے میں بجٹ کی آمد سیاسی ماحول میں ایک اور طرح کی گرما گرمی پیدا کر دیتی ہے کچھ لوگوں کی امیدیں پوری ہوتی ہیں اور کچھ کی امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔سرکار کے ملازم تنخواہ داروں کو تنخواہیں بڑھنے کی امید ہوتی ہے کچھ اہم فیصلے کاروباری زرعی اور معیشت کے دیگر شعبوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ عوام کا 30یا 25فیصد بنتا ہے۔ باقی ستر فیصد عوام کو خبر ہی نہیں کہ بجٹ کس بلا کا نام ہے۔ ان 70فیصد میں بھی چالیس فیصد ایسے ہیں جو انتہائی غربت میں گزر بسر کرتے ہیں۔ انہیں تو اپنے وجود کی بھی خبر نہیں ہے زندگی کو جبر مسلسل کی طرح کاٹ رہے ہیں، یہ لوگ بھی ریاست پاکستان کے شہری ہیں۔ پیٹ کا دوزخ انہیں بھی بھرنا ہے۔ محنت مزدوری کر کےجو کماتے ہیں اس سے ان کا دو وقت کا چولہا نہیں جلتا۔ ریاست پاکستان کا یہ افلاس زدہ طبقہ بھی ٹیکس دیتا ہے۔
غربت کے آخری دہانے سے نیچے لڑھکے ہوئے افراد ایک ماچس خریدنے پر بھی ٹیکس دیتے ہیں مگر اسکے جواب میں ریاست انکے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے ۔بات اس افلاس زدہ طبقے کی ہو رہی ہے تو ایک مثال دیتی ہوں ’حکومت پنجاب کے ستھرا پنجاب کی پالیسی کی زد میں لاہور کے وہ سینکڑوں کوڑا اٹھانے والے خاندان بھی آئے ہیں جو اپنی روزی روٹی گھر گھر سے کوڑا اٹھا کر کماتے تھے یہ وہ خاک بسر ہیں جن کا والی وارث کوئی نہیں۔
یہ کوڑے سے رزق تلاش کرتے تھے۔ صفائی ستھرائی کا نظام بہتر کرنے کیلئے سرکاری کارندے اب گھروں سے کوڑا اٹھانے کا کام کرتے ہیں جو یقیناً ایک اچھی ڈیویلپمنٹ ہے۔ مگر وہ سینکڑوں لوگ جو نسل در نسل کوڑے میں پلے بڑھے اور کوڑے سے ہی رزق تلاش کرتے ہیں انہیں اس کام سے فارغ کر دیا انکے روزگار کا متبادل بندوبست کرنا چاہیے یا انہی لوگوں کو ستھرا پنجاب کی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے تھا‘ ۔
یہ بھی انسان ہیں پیٹ ان کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے یہ بھی بیمار ہوتے ہیں اور انسانوں کی تمام تر ضرورتیں انہیں بھی پیش نظر رہتی ہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جو غربت سے بھی نیچے ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو انسانیت اور انسان کی توہین ہے۔ ان کی زندگیوں کو بہتر کرنے کیلئے بجٹ میں کوئی پالیسی، کوئی پروگرام موجود نہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، ریفارم کا پروگرام نہیں ہے یہ ایک وظیفے کا پروگرام تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس سے خاندانوں کی قسمت نہیں بدلی جا سکتی کہ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں موجود ایسے لوگوں کی قسمت صرف اس وقت بدل سکتی ہے جب ان کو تعلیم شعور اور روزگار کے مواقع میسر آئیں۔ برسبیل تذکرہ اس طبقے کا ذکر آیا اس پر ایک الگ کالم باندھنا ضروری ہے۔
بات ہو رہی تھی اس طبقےکی ان کی زندگیوں پر بجٹ اثر انداز ہوتا ہے ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں چند فیصد اضافہ ضرور ہو جاتا ہے مگر نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کیلئے بجٹ میں کوئی پروگرام نہیں ہوتا انکی تنخواہوں میں بڑھوتی کا کوئی فارمولا بجٹ میں طے نہیں ہوتا۔
روایت یہی ہے کہ وزیر خزانہ بجٹ تقریر میں پہلے حکومت کی معاشی مجبوریوں کا تذکرہ کرتا ہے پھر آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بابت مسائل کا تذکرہ کرتا ہے اور پھر بتاتا ہے کہ مشکل مالی حالات کے اندر بھی ہم نے ایک بہترین بجٹ بنایا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں افراط زر میں کمی ہو رہی، معاشی سروے کرنے والے فلاں فلاں عالمی اداروں نے اس برس کی معاشی ترقی کو گزشتہ برس سے بہتر قرار دیا ہے ۔غرض ایک رٹا رٹایا اسکرپٹ ہر برس بجٹ تقریر میں دہرایا جاتا ہے۔مجھے معیشت کی باریکیوں کا علم نہیں ہے۔ میں کوئی معیشت دان نہیں ہوں مگر ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے یہ ضرور کہوں گی کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح ضرور کم ہوئی ہے مگر مہنگائی بدستور موجود ہے۔ سبزیاں اس بار پہلے کی نسبت سستی رہی ہیں۔ لیکن باقی ضروریات زندگی اب بھی بہت مہنگی ہیں اور ایک بڑے پاکستانی طبقے کی پہنچ سے باہر ہیں۔
پاکستان کا 70فیصد طبقہ سفید پوش ہے جبکہ40 فیصد خط غربت سے بھی نیچے تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آئی ایم ایف کے منت ترلوں سے قرض کی اگلی قسط منظور ہوتی ہے تو اہل اقتدار اسے اپنی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی گردانتے ہیں۔ان مشکل حالات میں جب ملک کی معیشت قرض پر رینگ رہی ہو، ممبر پارلیمنٹ، وفاقی وزیروں، اسپیکر، چیئرمین سینٹ کی تنخواہوں میں کئی سو فیصد اضافہ چپ چاپ کر لیا گیا۔ ایک طرف عوام کیلئےدو وقت کا کھانا مشکل ہے تو دوسری طرف اہل اقتدار کا اپنی تنخواہوں میں اضافہ کر لینا پرلے درجے کی بے حسی ہے۔ آغاز اقتدار میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کوئی کفایت شعاری کمیٹی بھی بنائی تھی اس کا کیا بنا؟
کیا اسی کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ، اسپیکر ،وفاقی وزیروں اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا جائے اور کیا اسی کفایت شعاری کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کے سالانہ بجٹ میں 10کروڑ کا اضافہ کیا جائے۔ وزیر اعظم ہاؤس کی تزئین و آرائش باغ بغیچے کے بجٹ میں بھی کروڑوں کا اضافہ کر دیا جائے؟ یہ فیصلے تنقید کی زد میں ہیں۔ سنا ہے کہ وزیر اعظم نے بھی اس کا نوٹس لے لیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ منظوری وزیر اعظم کے نوٹس میں آئے بغیر کیسے ممکن تھی۔
خود غرضی اور بے حسی کے ماحول میں خواجہ آصف کی جرآت مند آواز سلامت رہے، سیالکوٹ کے سیاست دان نے مشکل معاشی حالات میں اہل اقتدار کا تنخواہوں میں اضافہ کر لینا مالی فحاشی قرار دیا۔ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ خواص قربانیاں کب دیں گے؟