فی نفسہ جنگ اچھی چیز نہیں ہے اس میں دو فریق ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں ۔ ازمنہ قدیم میں جنگ صرف میدان میں لڑی جاتی اور دو بدو لڑائی ہوتی تھی۔ صرف فوجیں لڑتیں۔ اپنے اپنے ملک یا علاقے میں عوام الناس کو فقط اطلاعات موصول ہوتیں یا پھر قبضہ کی صورت میں تباہی مچ جاتی۔ اس تباہی کا کوئی قاعدہ قانون نہ ہوتا۔ بچے، عورتیں اور بزرگ سب ظلم و بربریت کا شکار ہوتے ۔ آج کا مہذب اور تعلیم یافتہ انسان اُس زمانے کو زمانہ جاہلیت سے موسوم کرتا ہے۔ آج کے مہذب انسان نے اعلیٰ اخلاقی اصول وضع کر لیے ہیں۔ جنگوں کے بھی قواعد و ضوابط طے ہیں۔ یہاں تک کہ صلح اور امن کو فروغ دینے کیلئے UNO جیسا عظیم ادارہ موجود ہے جسکے چارٹر اور دسمبر 1974کو جاری کردہ ایک ڈکلیئریشن کے مطابق کسی فوجی تصادم کے نتیجے میں شہری آبادی بالخصوص عورتوں اور بچوں کو نقصان پہنچانا جنگی جرم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج کا انسان اپنے بنائے ہوئے ان قوانین کی پاسداری کر رہا ہے؟ یا پھر آج بھی ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ جیسے اصول پر عمل پیرا ہے۔ قارئین کرام دیکھا جائے تو تمام تر علمی، عقلی، تعلیمی اور شعوری بالیدگی کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں طاقت کا سکہ چل رہا ہے۔ بظاہر خوبصورت لباس میں ملبوس، چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ سجائے، دوست دشمن سے مصافحہ کرتے ہوئے آج کا انسان بھی اندر سے اتنا ہی وحشی ہے جتنا ماضی میں تھا۔ بس ذرا جنگ چھڑنے کی دیر ہے تہذیب کا سارا میک اپ اتر کر بھیانک چہرہ نمودار ہو جاتا ہے اور ’’جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘‘ جیسے روایتی فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے۔ ایک طرف انسان کی درندگی کا تسلسل ہے اور دوسری طرف چودہ سو برس قبل امن تو کیا جنگ تک کے اصول وضع کر دیے گئے تھے جس میں بچے بوڑھے خواتین تو درکنار حالت جنگ میں جنگلی حیات اور درختوں تک کو نقصان پہنچانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ عصر حاضر میں یا ماضی میں جتنی جنگیں ہوئیں یا ہو رہی ہیں ان میں نہ صرف اسلامی اصولوں کی بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور ڈیکلریشنز کی بھی کھلی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ آج کے برائے نام مہذب انسان کھلی آنکھوں سے چپ چاپ انسانی درندگی کا نظارہ کر رہے ہیں۔ غزہ میں جاری جنگ اس کی واضح مثال ہے۔ قارئین کرام شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو جب کرہ ارض پر موجود ریاستیں باہم دست و گریباں نہ ہوں۔ کہیں نہ کہیں جنگ و جدل جیسا کچھ نہ کچھ ضرور چل رہا ہوتا ہے اور انسانیت کسی نہ کسی بربریت سے گزر رہی ہوتی ہے۔ طرز جنگ ضرور بدل گیا مگر انسانی درندگی نہ بدلی۔ پہلے فوجیں آمنے سامنے لڑنے کے بعد پیش قدمی کر کے دشمن کا علاقہ فتح کیا کرتی تھیں۔ جانی نقصان کے بعد ہی فتح یا شکست کا فیصلہ ہوا کرتا تھا۔ پھر ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے انسان نے آج کے
دور میں قدم رکھا جب دو بدو لڑائی سے پہلے میزائلوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ ہوائی حملے کیے جاتے ہیں اور ان میں بھی وہی کچھ کیا جاتا ہے جو پہلے ہوتا رہا ہے یعنی انسانی جانوں کا قتل۔ میزائل یا بم کسی بھی ملک کے ہوں ان کا کام صرف پھٹنا ہے اور جب بم پھٹتے ہیں تو وہ انسانی قتل کا موجب ہی بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں 10مئی 2025سے پہلے تک جتنی جنگیں لڑی گئیں وہ شہری اور فوجی ہلاکتوں پر ہی منتج ہوئیں۔ اسی بنا پر ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست کا اعلان ہوتا رہا ہے۔ مگر حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے صدیوں سے جاری وار ڈاکٹرائن تبدیل کر دیا ہے۔ اس جنگ کے بھی دو فریق تھے پاکستان اور بھارت۔ چھ اور سات مئی کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان کے شہروں پر ویسے ہی حملے کیے جیسے جنگوں میں ہوتے رہے ہیں۔ ماضی قریب تک لڑاکا طیارے بم گرانے کیلئے دشمن کے شہری علاقوں میں بھیجے جاتے تھے مگر اب بٹن دبا کر میزائل داغے جاتے ہیں۔ بھارت نے اسی روایت کے مطابق جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں میزائل داغ کر انسانی جانوں کو تلف کیا جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ اگلے دو دن بھی وہی کچھ کیا جو معروف ماڈرن طریقہ ہے یعنی ڈرون کے ذریعے شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا۔ اس دوران پاکستان مسلسل تنبیہ کرتا رہا کہ بھارت ایسا کرنے سے باز آ جائے کیونکہ پاکستان امن چاہتا ہے اور امن کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ بھارت کے سر پر مگر وکٹری کا بھوت سوار تھا جس نے آغاز ہی شہری آبادیوں کو نشانہ بنا کر کیا اور مسلسل بنائے چلا جا رہا تھا۔ بالآخر پاکستان نے آپریشن بنیان مرصوص کے ذریعے نہ صرف دشمن کو بلکہ عالمی سطح پر یہ باور کرا دیا کہ آج کے دور میں جنگیں انسانی خون خرابے کے بغیر بھی جیتی جا سکتی ہیں۔بہت شور ہے کہ ہم نے بھارت کے رافیل سمیت چھ جنگی طیارے مار گرائے ہیں، حملہ آور فوجی تنصیبات کو تباہ کیا ہے وغیرہ وغیرہ..... یہ سب درست ہے مگر پاک بھارت حالیہ جنگ کا جو نقطہ کمال ہے وہ وار ڈاکٹرائن کی تبدیلی ہے۔ افواج پاکستان نے واضح حکمت عملی کے تحت نہ صرف اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد کیا بلکہ UNO چارٹر کی پاسداری کرتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان ایک مہذب، پرامن ایٹمی طاقت ہے اور وہ ہر دوست دشمن کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق پرامن رہنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے اس جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کر کے اور پھر فتح یاب ہو کر ایک مثال قائم کی ہے ۔ اب دنیا بھر میں موجود دشمن ملکوں کو پاکستان کے اس فلسفہ جنگ سے سبق سیکھنا چاہیے۔جنگوں میں کسی بھی ملک کے عام شہری، بچے، بوڑھے اور خواتین کو معصوم سمجھیں اور ان کا خواہ مخواہ خون بہانے سے پرہیز کریں۔ جیسا پاکستان نے کر کے دکھایا۔ اس پر بلاشبہ بھارتی عوام کو افواج پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔ تاہم واضح رہے کہ پاکستان کے اس ڈاکٹرائن میں قتل کا بدلہ قتل جیسا جہادی اصول بھی مضمر ہے مگر دفاعی اور آخری آپشن کے طور پر...! آخری بات.... مجھے یقین ہے کہPakistan War Doctrine اب دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کیس اسٹڈی کے طور پر پڑھا اور پڑھایا کریں گے کیونکہ یہ دنیا بھر کے انسانوں کی بقا کا ضامن ہے۔