اسرائیل نے ایران کے اندر نقب کیسے لگائی؟ کس طرح ڈرونز بنانے چلانے والی خفیہ فیکٹری تہران کے قریبی علاقے اسفج آباد میں قائم کی گئی، ڈرونز چلانے والی گاڑیاں وہاں کیسے اسمگل ہوئیں۔ اسرائیلی کمانڈوز کے خصوصی دستے کو ایران کی جوہری تنصیبات بارے حساس معلومات کس نے فراہم کیں۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی جو پہلے ایرانی جوہری پروگرام کے محفوظ ہونے، عالمی معیار پر پورا اترنے کا اقرار کرتے تھے اسرائیل کے حملے سے ایک روز قبل اچانک انکی رائے کیوں تبدیل ہوئی اور انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام بارے تحفظات کا اظہار کس کے کہنے پر کیا۔ اہم ترین اور مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ایران کی آستین میں کون سا سانپ چھپا بیٹھا تھا جسکی معلومات، سہولت کاری کے نتیجے میں اسرائیل ایران کے اندر ایک خفیہ اڈا بنانے میں کامیاب ہوا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور ایک بڑا دفاعی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کارروائی میں ایران کی مرکزی فوجی قیادت، سینئر ترین ایٹمی سائنسدانوں کی پوری ٹیم شہید کردی گئی مگر کسی مسلمان حکمران کا ضمیر نہیں جاگا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر حملے کے بعد جس ایک عالمی شخصیت سے سب سے پہلے ٹیلیفونک رابطہ کرکے اسے ایران پر حملے بارے بریفنگ دی وہ کوئی اور نہیں نریندر مودی تھا، آخر کیوں؟ تجارت کے عوض امن کے نعرے میں لپٹے امریکہ، اسرائیل، بھارت گٹھ جوڑ کے خفیہ گھناؤنے عزائم کیا ہیں؟ کچھ ایسے تلخ سوالات ہیں جنکے جوابات گہری تحقیق، تفتیش کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ پاک بھارت حالیہ جنگ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے سابقہ تمام جنگی حکمت عملیوں کو مات دیدی ہے۔ گزشتہ دنوں یوکرائن نے جو خفیہ حربہ روس کیخلاف استعمال کرکے اسکے فضائی اثاثوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا کچھ ایسی ہی کارروائی ایران میں بھی دہرائی گئی ہے۔ اسرائیلی ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایران پر حملے کی منصوبہ بندی دو دہائیوں سے جاری تھی جسکے نتیجے میں خفیہ ایجنسی موساد تہران کے قریب خفیہ ڈرون اڈا بنانے میں کامیاب ہوئی۔ یہ وہی اڈا ہے جہاں سے ایران کی مرکزی فوجی و ایٹمی تنصیبات ‘ ہوائی اڈوں‘ دفاعی نظام اور میزائل سسٹم کو نشانہ بنا کر غیر فعال کردیا گیا تھا۔ اس اڈے کے اردگرد اور ایران کے اندر مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے مختلف شہروں میں پرائیویٹ اسمگل شدہ گاڑیوں میں فضائی نظام کو غیرفعال کرنے کے آلات سمیت دھماکہ خیز مہلک ہتھیاروں بشمول گائیڈڈمیزائل نصب کئے گئے تھے۔ سیکورٹی ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلے ایران کے فضائی نظام کو ناکارہ بنایا گیاپھر پرائیویٹ گاڑیوں میں نصب گائیڈڈ میزائلوں سے بیک وقت ایرانی سیکورٹی، اسٹیبلشمنٹ، جوہری سائنس دانوں کو نشانہ بنا کر اسرائیلی جنگی طیاروں کو آزادانہ کارروائی کیلئے فضائی راہ ہموار کی گئی۔ اس تمام تر کارروائی کے دوران درجنوں ریڈار زمین سے فضا میں مار کرنیوالے لانچرز تباہ ہونے سے ایران کا فضائی دفاع تقریباً مفلوج ہو کر رہ گیا جسکے بعد اسرائیلی جنگی طیاروں نے تہران ‘تبریز ‘ اصفہان ‘کرمان‘ بندرعباس سمیت چھوٹے بڑے شہروں میں اہداف کو نشانہ بنایا۔ ایران کچھ تاخیر سے اسرائیلی ننگی جارحیت کا بھرپور جواب دے رہا ہے۔ تل ابیب‘ بیت المقدس سمیت مختلف اسرائیلی شہر ایرانی میزائلوں کی زد میں ہیں۔ دنیا کا دوسرا ”پینٹاگان“ اسرائیل کا فوجی ہیڈکوارٹر تباہ ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد بھی حسب معمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ضمیر سویا رہا۔ ایران کی جوابی کارروائی پر اس ناکام فورم کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ طویل تمہید کا مقصد اسرائیل کے حملے کے پس منظر میں کچھ سوالات کے جوابات تلاش کرنا ہے کہ آخر ایران کے اندر خفیہ فوجی اڈا قائم کرنے میں موساد کو کس کی اندرونی و بیرونی مدد حاصل تھی۔ اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عالمی پابندیوں کے باوجود پورے خطے بلکہ دنیا بھر میں ایران کے اگر کسی ملک کیساتھ مضبوط سفارتی و تجارتی تعلقات قائم ہیں تو وہ صرف بھارت ہے جسے امریکہ نے ایران سے سستا تیل خریدنے اور باہمی تجارت کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ یہ سہولت کسی دوسرے ملک کو میسر نہیں۔ آج ایران کے اندر بھارتی کمپنیوں کی تیار کردہ موٹر سائیکلیں، مشینری، انکے پرزہ جات، روزمرہ استعمال کی اشیاء کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں اور بھارت کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بھارت کے ایران کے اندر پاکستان مخالف جاسوسی و دہشت گردی کے نیٹ ورکس موجود ہونے کے ٹھوس شواہد کلبھوشن کی شکل میں موجود ہیں۔ ایسے نیٹ ورکس بلوچ علیحدگی پسندوں کے عسکری یونٹ کے طور پرپاکستان اور ایران میں کارروائیاں کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ایران کی خفیہ ایجنسیاں ایسے نیٹ ورکس کو پکڑنے میں ناکام رہیں۔ اس حوالے سے مزید شواہد پیش کئے جا سکتے ہیں۔ ایک اور نکتہ غور طلب ہے کہ اگربھارتی یوٹیوبرز کی ایران اور افغانستان کے اندر مشکوک سرگرمیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئیگی کہ یہ یو ٹیوبرز اپنے گھناؤنے چہروں کیساتھ امریکی‘ روسی‘ افغانی‘ ایرانی حسیناؤں کے ہمراہ بظاہر آزادی کے نام پر خرمستیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں انکی حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت دونوں ملکوں میں مذہبی رجحانات مخالف آزاد خیال نوجوان لڑکے لڑکیوں کو معاشرتی روایات اور مروجہ نظام حکومت کیخلاف بغاوت پر اُکسا رہے تھے یہ یوٹیوبرز سیرو سیاحت کی آڑ میں خفیہ معلومات حاصل کرکے پہلے را پھر موساد کو پہنچاتے ہیں۔ ایران پر حملہ کرنے کے بعد نیتن یاہو کا صرف مودی کو فون کرنا اور حملے بارے بریفنگ دینا بہت معنی خیز ہے۔ اس سوال کی تحقیق ایرانی حکومت کو دوست نما دشمنوں کو پہچاننے میں مدد کریگی۔ بھارت خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی پراکسی کے طور پر اپنا گندا کھیل کھیل رہا ہے جسکے نتیجے میں یکے بعد دیگرے دو مسلم ہمسایہ برادر ملکوں کیخلاف بھارت اور اسرائیل کا جنگ برپا کرنا خطرناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے جس پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔