• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! غور فرمائیں، ایک ماہ ہی گزرا جب داخلی سیاسی کھلواڑوں سے عجیب الخلقت بنا دیا گیا پاکستان اپنی ابتر حالت میں بھی چھ گنا دشمن ہمسائے کی برہنہ جارحیت کو خاک میں ملا کر اپنی آشکار عسکری صلاحیت سے خطے کا سب سے بالادست ملک ثابت ہوا۔ امریکہ اور بھارت کے NEXUS (گٹھ جوڑ) کی مکمل پشت پناہی سے اسرائیل نے کھلی اور برہنہ جارحیت کا ارتکاب کرکے ایران کی مکمل عسکری قیادت اور چھ ایٹمی سائنس دانوں کو پہلے سے منظم ترین وار سے شہید کردیا۔ اس پر عشروں سے بائیکاٹڈڈ ایران کے مکمل تنہا، بے یارو مدد گار اور بے بس و کمزور تر ہونے کا اندازہ دنیا بھر میں کیا جا رہا تھا اور نیتن یاہو اپنے مہلک ابلاغ و اقدام سے وقت کا فرعون لگ رہا تھا۔یہ تو پروپیگنڈے اور تباہ کن حملے سے صہیونی ایٹ لارج بننے والا زاویہ نگاہ PERCEPTIONہی تھا کہ’’ ایران کی پوشیدہ جملہ بڑی کمزوری یا ایک ہی مہلک حملے سے دنیا کے سامنے آگئی‘‘پھر جو لاکھوں عوام میں آ کر ایرانی سپریم رہبر جناب علی خامنہ ای نے اسرائیل کو جلد سنگین سبق سکھانے کا ایران کی سکت و جرأت کا جو پرایمان ابلاغ کیا وہ دو روز بعد من و عن ایرانی جوابی حملےسے درست ثابت ہوا۔ ایرا ن کی خود داری و خود انحصاری تو فروری 1978ء سے جب حضرت امام خمینی نے ’’مرگ بر امریکہ‘‘ اور ’’شیطان بزرگ امریکہ‘‘ کے ایرانی انقلابی ابلاغ پر مسلط شہنشاہیت ختم اور تمام تر امریکی اثر خلیج میں غرق کردیا، تادم تسلسل سے مکمل ثابت شدہ ہے۔اب جو ایران نے مہلک حملے کا برابر کا جواب دیا ہے، تل ابیب پر چن چن کر اسرائیلی ہیڈ کوارٹر، مرکز سائنس وتحقیق، ایئر ڈیفنس سسٹم اور دسیوں ملٹری انسٹالیشنز پر جتنے تباہ کن حملے کئے ہیں اس نے اسرائیل کی شہرہ آفاق دفاعی دھاک و ساکھ کو گھنٹوں میں ڈھیر کر دیا، جس طرح پاک فضائیہ اور ہماری بری فوج نے بھارت کی آزاد کشمیر کو قبضے میں لینے کے مذموم ارادوں اور دعوئوںکی اور بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی ، تل ابیب شہر غزہ کا منظر دکھا رہا ہے اور اس کی فضائی حدود کےمحفوظ ترین ہونے کا عشرے کا بیانیہ خاک ہوگیا، ایران کی طاقت آشکار ہوئی۔ ثابت ہوا کہ ہم مسلمانوں سمیت ایٹ لارج دنیا بھر کے تجزیہ کار ایسے خبر انگیز واقعا ت کا تجزیہ فقط زور دار جارحانہ پروپیگنڈے اور پرجوش اور غیر پیشہ ورانہ صحافتی ابلاغ میں بیان کئے اور سامنے آئے حقائق و دعوئوں اوربظاہر دھاک بھاگ پر ہی کرتے ہیں، کبھی اصل حقائق قدرت کے اعلیٰ ترین پاک اصولوں کو ان تجزیوں میں شامل نہیں کیا جاتا، باوجود اس کے مشیت ایزدی (رضائے قدرت) اپنا رنگ ڈھنگ بار بار دکھاتی ہے، لیکن آدمیت سےہی برآمد خلاف انسانیت شر و شیطانیت بھی ذرا طویل ہوتی ڈھیل و مہلت کے ساتھ بے نقاب تو ہوتی رہتی ہے۔

آج پرآشوب ہوگئی دنیا میں جبکہ اقوام متحدہ اپنی اتحاد کے آخری سانس لیتی معلوم دے رہی ہے۔ تین ’’سجائے‘‘ گئے بڑے وار تھیٹر، روس، یوکرین، پاک ، بھارت اور اسرائیل و غزہ کے بعد اب امریکہ بھارت اسرائیل نیکسس مقابل تنہا ایران میں، تہران نے جتنے دبائو دھمکیوں اور ہلاشیری اور اپنے طویل صبر و تحمل و حکمت کے بعد اپنی دور افتادہ اسرائیل پر تباہ کن حملے پر جو صلاحیت دنیا کو دکھائی آخر یہ کیا ہے؟ باریک بینی اور مومنانہ قلب و ذہن سے اس کا تجزیہ کیا جائے تو مکمل واضح ہوتا ہے کہ ہم آج کے مسلمان جس حقیقت کو خرافات میں مکمل گمشدہ سمجھتے ہیں وہ اتنی گم اور ناپید نہیں ہوتی۔ ایران و پاکستان کے حالیہ دونوں کیس ایسی ہی اسٹڈیز کو دعوت دیتے ہیں کہ ہم آج منافقت و جھوٹ کے غلبے میں بھی اگر جتنے اور کہیں خود راہ راست پر ہیں تو پھر سب کچھ ناپید نہیں ہوگیا۔ وہ صراط مستقیم کے سست رفتار ہی سہی سفر پر ساتھ رہتا اور مخصوص وقت پر عود کر باہر آتا ہے۔ اصل میں جب ہم حق پر قائم رہتے اور صبر و حکمت کی طاقت ہی ہماری ہم سفر ہوتی ہے۔ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ ہم جس ابتلا و ابتری میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ ہمارے اپنے جھوٹ و فریب و دغا کے غلبے میں مغلوب ہونے کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ جب غلبے سے نکلا یہ نتیجہ ہمیں ’’بغاوت و مزاحمت‘‘ پر اکساتا ہے او رہم رسپانس نہیں کرتے تو کمزوریٔ ایمان و یقین و عمل، ہماری جزوی راست بازی اور صبر و حکمت و مصلحت کے نتائج کو بھی قدرتاً موخر کر دیتی ہے۔

پاکستان کے آٹھویں عشرے کی قومی زندگی و تاریخ کے دسیوں اسباق میں حکومت و سیاست و حالت عوام پر مبنی غلبے میں قومی صلاحیتوں، پوٹینشل اور عوامی جذبات و احساسات کے دبے گھٹے رہنے کا کیس بہت واضح ہے۔ آج عوامی رویے مثبت سمت اختیار کرنے کے باوجودبڑی مطلوب تبدیلی برپا ہونے سے رکی پڑی ہے۔ عوامی رویہ مزاحمت و حکمت و صبر اور گنجائش برابر جہد مسلسل کی شکل اختیار کرنے کے باوجود ماورا آئین و قانون حکومتی اختیارات کے زور پر اپنا اصل رنگ اور گراں قدر نتائج نہیں دے رہا۔ جو بیرونی مداخلت اور مقامی معاونت بشکل متروک ہارس ٹریڈنگ کی بحالی کا شاخسانہ ہے۔ یہ ایک قوم کی خود شکنی اور اس حالت میں بے بسی اذیت ناک ہے اور قوم و ملک اور سلطنت کے لئے مہلک ہے۔ اس حوالے سے ایران کی سخت جانی و خود داری و خود انحصاری ہمارے لئے پاکستان کو حقیقی خود مختار و باوقار بنانے کا انسپائرنگ سبق ہے۔

مائنس عوام اور مافیہ و موروثی راج کا غلبہ جو نتائج دیتا ہے، ہمارے ہاں وہ تباہ کن نتائج نکلنے پر بھی بند بندھا ہوا ہے، جس کا کریڈٹ قوت و اخوت عوام کو جاتا ہے، جنہوں نے اپنا یہ مقام حاصل شعور اور قومی جذبے سے بنایا ہے، لیکن جو کچھ پانے کے لئے بنایا ہے سازگار صورتحال کے باوجود حق سچ اور لازم و مطلوب نہیں مل پا رہا۔ پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے ایسی صورت کے امکانی نتائج تک پہنچ کوئی مشکل نہیں۔ ہمارے کرتے دھرتے جرم ضعیفی یا ناجائز اور محدود و ناجائز مفادات میں اتنے بے ایمان یا ہوس گیر ہوگئے کہ ہم برسوں سے ایران پر لگی منافقانہ عالمی پابندیوں کوقبول کرکے اپنے متوسط اور غریب طبقے کا برسوں سے بڑا بھاری خسارہ کرا رہے ہیں، کہ ہم گیس و تیل جیسی تیل کی پرامن مکمل جائز اور لازمی ضرورت سستے داموںبھی ہمسایہ ایران سے انتہائی ناجائز سفارتی دبائو میں حاصل نہ کرسکے، جبکہ ایران اپنے حصے کا کام کرکے دونوں ضرورتوں کی ترسیل کے لئے ہماری سرحد تک پائپ لائن انسٹال کرچکا اور منتظرو بے چین رہا، حالانکہ غربا پاکستان کی لازمی ضرورت کی طاقت اس مناسب ترین سودے کو حاصل کرنے کے لئے کافی تھی، یہاں تو اپنی ایٹمی حیثیت دکھانے جتانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن ہم اپنی ہی اس طاقت کا اتنا بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ چلو! جو ہوا سو ہوا۔ قدرت نے تو پھر پاکستان کو مملکت خدا داد ثابت کردیا۔ آئیں شکر کریں، گریبان میں جھانکیں، اصلاح کریں اور پاکستان کو آئین کے ڈھب پر لائیں۔ مائنس عوام موروثی بیساکھیوں کے جگاڑ سے پاکستان چلانا، قیام پاکستان کے شہدا، بقائے پاکستان پر قربان ہونے والے محافظین وطن، آئین و حلف سے بے وفائی نہیں؟ ذرا سوچو۔

وما علینا الالبلاغ

تازہ ترین