• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا عصمت اللہ نظامانی

اگر یہ کہا جائے کہ نرم مزاجی بظاہر ایک صفت ہے، لیکن درحقیقت یہ مجموعۂ صفات ہے، اور تمام اوصافِ حمیدہ اس میں پنہاں ہیں تو یقیناً مبالغہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک ایسا عطیۂ خداوندی ہےجس پر دنیا وآخرت کا آرام وسکون موقوف ہے، رحم دلی ونرم مزاجی دوسروں کے لیے بھی باعثِ راحت رسانی ہے، اور خود اپنے لیے بھی فوائد ومنافع کا سبب ہے۔ 

نرم دل شخص لوگوں کی نظر میں محبوب وپسندیدہ ہوتا ہے، لوگ اس کی دوستی اور ہم نشینی کے مشتاق ہوتے ہیں، اس کی ہم نشینی کی چاہت رکھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس کا ایک خاص مقام ہے، جبکہ تندخو و سخت گو شخص کے ساتھ بیٹھنا بھی لوگوں پر گراں گزرتا ہے۔

اسی وجہ سے اسلام میں رِفق ونرمی اپنانے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے، اور قرآن پاک واحادیثِ مبارکہ میں اس کی اہمیت وضرورت وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے، ذیل میں نرم مزاجی و رِفق کی اہمیت مع فضائل مختصراً بیان کی جارہی ہے:

رِفق و نرم مزاجی کی اہمیت۔ قرآن کریم کی روشنی میں

قرآن پاک میں نرم مزاجی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نبی کریم ﷺکی صفت کہا گیا ہے، اور تندخوئی کی مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: ’’پھر اللہ کی رحمت ہی کے سبب سے آپﷺ ان کے لیے نرم ہوگئے، اور اگر آپ ﷺ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپﷺ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔‘‘(سورۂ آل عمران: ۱۵۹)

مسلمانوں کے ساتھ نرمی وملاطفت سے پیش آنے کا حکم اپنی جگہ، قرآن میں تو غیر مسلموں، بلکہ کافروں کے سردار فرعون سے بھی نرمی سے بات کرنے کا حضرت موسیٰ و ہارون علیہما الصلاۃ والسلام کو حکم دیا گیا ہے، تاکہ دعوتِ دین اور حق بات نفع بخش اور بارآور ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ موسیٰ وہارون علیہما الصلاۃ والسلام سے فرماتے ہیں: ترجمہ: ’’سو تم دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘(سورۂ طٰہ: ۴۴)

نرم خوئی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کو محبوب و پسندیدہ عمل

سنتِ رسول ﷺ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ آپ ﷺ نے نرم مزاجی اپنانے کی خصوصی تاکید کی ہے، اور اپنے عمل کے ذریعے بھی اس کی اہمیت اُجاگر کی ہے، اور اس کے فضائل ذکر کیے ہیں۔ من جملہ ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ نرم خوئی اور رِفق کی صفت اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب اور پسندیدہ ہے، جیسا کہ درجِ ذیل روایت سے یہ بات واضح ہورہی ہے۔

ایک مرتبہ یہود کی ایک جماعت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی، اور سلام کرنے کے بجائے ’’السام عليکم‘‘ کہا، اور ’’سام‘‘ موت کو کہتے ہیں، یعنی خاکم بدہن آپ پر موت ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ سن لیا، وہ کہاں برداشت کرسکتی تھیں کہ آپ ﷺ کی شانِ اقدس میں ادنیٰ درجے کی بھی ناگفتہ بہ بات کہی جائے، چنانچہ انہوں نے بھی جواب میں کہا: ’’وعليکم السام واللعنۃ‘‘ یعنی تم ہی پر ہلاکت اور لعنت ہو۔ اس پر حضور ﷺ نے ان سے فرمایا: ترجمہ: ’’آرام سے اے عائشہ! نرمی اختیار کرو اور سختی وبدگوئی سے بچو۔‘‘(صحيح البخاری،(۸/۸۵)، کتاب الدعوات، رقم الحديث: ۶۴۰۱، الناشر: دار طوق النجاۃ، ط: ۱۴۲۲ھ)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیاوی معاملات کے ساتھ دینی امور میں بھی رفق ونرمی کے ساتھ چلنا ضروری ہے، دین پر عمل پیرا ہونے، یا اس کی نشر واشاعت اور تبلیغ کے سلسلے میں تشدّد اور سختی ناپسندیدہ عمل ہے، چنانچہ حدیث میں ہے: ترجمہ: ’’بےشک، یہ دین بڑا سنجیدہ و مضبوط ہے، لہٰذا اس میں نرمی کو شامل رکھا کرو۔‘‘( مسند احمد، (۲۰/۳۴۶)، مسند انس بن مالک ؓ، رقم الحديث: ۱۳۰۵۲، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ- بيروت، ط: ۱۴۲۱ہ- ۲۰۰۱ م)

حضور اکرم ﷺ کی نرم خوئی

نبی کریم ﷺ کی اعلیٰ صفات واوصافِ حمیدہ میں سے ایک نمایاں صفت یہ تھی کہ آپ ﷺ حلیم الطبع، نرم خو ونرم مزاج تھے، مخالفین کی طرف سے چاہے جتنی بھی ایذاء وتکالیف کا سامنا ہوتا، آپ ﷺ کے حسنِ اخلاق ونرمی پر اس کا شائبہ بھی نہ پڑتا، اور نہ آپﷺ کے چہرۂ مبارک پر تکدّر کے آثار ظاہر ہوتے، آپ ﷺ کی نرم خوئی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: ترجمہ: ’’میں نے دس سال نبی کریم ﷺ کی خدمت کی، پس آپﷺ نے کبھی اُف تک نہیں کہا، اور نہ کبھی فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اور نہ یہ فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘(صحیح البخاری، (۸/۱۴)، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء، رقم الحديث: ۶۰۳۸)

یعنی بظاہر حضرت انس ؓ سے بھی کسی کام میں کوئی غلطی اور خطا ہوجاتی ہوگی، لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ اس پر بلاوجہ زجر وتوبیخ نہیں کرتے تھے، بلکہ نرم خوئی ودرگزر کا معاملہ فرماتے۔ حضور ﷺ کی نرم خوئی کے سلسلے میں مندرجہ ذیل واقعہ فائدےسے خالی نہ ہوگا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں نماز میں کلام کرنا ممنوع نہیں تھا، بعد میں اس سے روکا گیا، حضور ﷺ کے ایک صحابی حضرت معاویہ بن حکم سلمی ؓ نو مسلم تھے، اس لیے انہیں یہ بات معلوم نہیں تھی کہ نماز میں باتیں کرنا منسوخ وممنوع ہے، چنانچہ ایک مرتبہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے کہ جماعت میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی، حضرت معاویہ بن حکمؓ نے ’’یرحمک اللہ‘‘ کہہ کر اس کا جواب دیا، یہ دیکھ کر لوگوں نے انہیں گھورنا شروع کر دیا، اس پر حضرت معاویہؓ نے کہا: تم مجھے گھور کیوں رہے ہو؟ اب وہ لوگ اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنے لگے، تاکہ معاویہ بن حکمؓ سمجھ جائیں، اور خاموش ہوجائیں، چنانچہ وہ خاموش ہوگئے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضور ﷺ نے انہیں بلایا، اور کسی قسم کی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی، بلکہ آرام سے عمدہ انداز میں اُنہیں سمجھایا، حضرت معاویہ بن حکمؓ خود فرماتے ہیں: ترجمہ: ’’میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں۔

میں نے حضور ﷺ سے بہتر سکھانے والا نہ پہلے کبھی دیکھا، اور نہ بعد میں۔اللہ کی قسم! آپ ﷺ نے نہ مجھے جھڑکا، نہ مارا اور نہ ہی برا بھلا کہا، بس یہ فرمایا کہ نماز میں لوگوں سے باتیں کرنی درست نہیں، اس نماز میں تو تسبیح، تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہوتی ہے۔‘‘( صحیح مسلم، (۱/۳۸۱)، کتاب المساجد، باب تحريم الکلام في الصلاۃ، رقم الحديث: ۵۳۷، الناشر: دار إحياء التراث العربی- بيروت)

نرمی پر عطائے خداوندی

نرمی ایک ایسی خوبی ہے جس کی وجہ سے بندے پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بارش ہوتی ہے، اور اس کثرت سے انعامات وعطائے خداوندی ملتے ہیں کہ کسی دوسری صفت پر شاید ہی ایسے انعامات حاصل ہوتے ہوں،چنانچہ یہی مفہوم ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ترجمہ: ’’بےشک اللہ تعالیٰ رفیق (نرمی کرنے والا) ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی اختیار کرنے کی بنا پر وہ اس قدر عطا فرماتا ہے کہ جو سختی یا اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے اس قدر عطا نہیں فرماتا۔‘‘( صحیح مسلم، (۴/۲۰۰۳)، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، رقم الحديث: ۲۵۹۳)یعنی بسااوقات بظاہر سختی کرنے میں ہی نفع معلوم ہو رہا ہوگا، لیکن درحقیقت نرمی سے جتنا فائدہ ہوگا، سختی کرنے میں اتنا نہیں ہوگا۔

نرمی خوبصورتی کا سبب

احادیثِ مبارکہ میں نرمی کو حسن وخوبصورتی کا باعث قرار دیا گیا ہے کہ نرم مزاجی آدمی میں زینت کا سبب ہے، جبکہ ترش روئی وتندخوئی ایک قسم کا عیب ہے۔ اور مشاہدہ بھی یہی ہے کہ جو افراد حلیم الطبع، ہنس مکھ اور نرم مزاج ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے پاس جانے اور ان سے باتیں کرنے کا ہر کسی کا دل چاہتا ہے، اس کے برخلاف غصیلے، درشت مزاج اور تندخو شخص سے ہر کوئی پہلو تہی کرتا ہے، کوشش کرتا ہے کہ ان حضرت کا سامنا نہ ہی ہو تو اچھا ہے۔ اس بارے میں آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’بلاشبہ نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے، وہ اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز میں سے نرمی نکال دی جاتی ہے تو اسے بدنما وعیب دار کردیتی ہے۔‘‘( صحیح مسلم)

نرمی سے محروم شخص، ہر بھلائی سے محروم

نرم مزاجی سے انسان کو خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے، اس کی وجہ سے دنیا میں بھی انسان کو اتنے فوائد مل سکتے ہیں جو سختی کرنے پر نہیں مل سکتے، نرم بات کا دوسرے پر بھی اچھا اثر ہوتا ہے، جبکہ تیز لہجہ میں بات عموماً بے اثر ہوتی ہے، اور انسان بھلائیوں سے محروم رہتا ہے، اسی طرح آخرت کی بھلائیاں بھی نرم مزاجی سے حاصل ہوتی ہیں، چنانچہ حضور ﷺ سے روایت ہے: ترجمہ: ’’جس شخص کو نرمی سے حصہ دیا گیا اسے بھلائی سے حصہ دیا گیا اور جسے نرمی کے حصے سے محروم رکھا گیا تو وہ بھلائی سے محروم ہوا۔‘‘(سنن ترمذی)

نرمی کا معاملہ کرنے والوں کے لیے دعائےنبویؐ

لوگوں کے ساتھ رفق ونرمی کا معاملہ کرنے کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے حضور ﷺ نے دعا فرمائی ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ترجمہ: ’’میں نے رسول اللہ ﷺ سے میرے اس گھر میں فرماتے سنا: اے اللہ! جس شخص کو میری اُمت کے کسی معاملے کا والی وحاکم بنایا جائے، پھر وہ ان پر سختی کرے تو آپ بھی اس پر سختی کریں، اور میری امت میں سے جسے کسی معاملے کا والی بنایا جائے اور وہ ان سے نرمی کرے تو آپ بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمائیں۔‘‘( صحیح مسلم)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن وسنت میں لوگوں کے ساتھ نرم خوئی ونرم مزاجی سے پیش آنے کی بہت اہمیت وفضلیت بیان کی گئی ہے، اور بلاوجہ سخت برتاؤ کرنے، پُرتشدد لہجہ اپنانے اور دوسروں کے ساتھ تندخوئی سے پیش آنے کی ممانعت آئی ہے، لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ُاسوۂ رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے نرم مزاجی کی اعلیٰ صفت کو اپنائیں۔

اقراء سے مزید