• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎’’پاکستان کے آرمی چیف اپنے ملک کی بااثر شخصیت ہیں پاک ہند کشیدگی روکنے میں پاکستان کی طرف سے جنرل عاصم منیر کا کردار انتہائی مؤثر رہا، اس حوالے سے ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میں نے انہیں وائٹ ہاؤس میں ڈنر پر مدعو کیا۔ وہ ایران اور اسرائیل دونوں کو جانتے ہیں یہ نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ خراب تعلقات چاہتے ہیں لیکن ایران کو زیادہ بہتر جانتے ہیں، تجارت کے علاوہ، ان سے ایران کے معاملے پر بھی بات ہوئی اور وہ مجھ سے متفق تھے، ان سے ملاقات اعزاز کی بات ہے، مجھے پاکستان سے پیار ہے، میں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ روکی، پرائم منسٹر انڈیا نریندرامودی بھی لاجواب شخص ہیں ان کا بھی شکریہ ادا کرناچاہتا ہوں‘‘۔جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا اور سنا ہے یہ الفاظ امریکیصدر ٹرمپ کے ہیں، کس قدر انہونی اور حیرت انگیز بات ہے کہ عالمی سپر پاور امریکا کا پریذیڈنٹ کسی ملک کے آرمی چیف کو تقریباً سربراہِ مملکت و حکومت جیسا پروٹوکول دیتے ہوئے اس کی ستائش کررہا ہے۔

‎یہ سب کیوں اور کیسے ہوا اور آگے چل کر ہمارے خطے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے؟؟ اس نوع کی بحثیں ہوتی رہیں گی یہ بھی درست ہے کہ انڈیا میں اس پر حیرت ہی نہیں غصے کا اظہار بھی کیاجارہا ہے بالخصوص پرائم منسٹر مودی کے ناقدین ان سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ آپ تو خود کو ٹرمپ کا دوست کہتے نہیں تھکتے تھے آپ سفارتی آداب سے بھی آگے نکل کر امریکی الیکشن میں یہ کہتے ہوئے ٹرمپ کی کھلی حمایت تک چلے گئے تھے کہ اب کی بار ٹرمپ سرکار، لیکن آج وہی ٹرمپ جو کچھ کررہے ہیں اور جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں ہماری خارجہ پالیسی اور بالخصوص خود آپ کے اپنے پلے کیا رہ گیا ہے؟ عین اسی روز جب آپ کی فون پر ٹرمپ سے آدھا گھنٹہ بات چیت ہوئی اور آپ نے ان پر واضح کیا کہ ہم اپنے معاملات میں تھرڈ پارٹی کی مداخلت قبول نہیں کرتے اور نہ ہی پاکستان سے جھڑپوں کے دوران فائر بندی میں ان کا کوئی کردار مانتے ہیں اس سب کے باوجود ٹرمپ نے آپ کے مؤقف کی ذرا لاج نہیں رکھی۔ شاید ٹرمپ تو اس سے بھی بڑھ کر یہ چاہتے تھے کہ جی 7سمٹ کے فوری بعد مودی واشنگٹن آئیں انہوں نےبھارتی وزیراعظم کو فون کرکے مدعو بھی کیا جبکہ اسی دوران انہوں نے فیلڈمارشل عاصم منیر کو بھی وائٹ ہاؤس مدعو کررکھا تھا اگر مودی ٹرمپ کی یہ درخواست مان لیتے تو عین ممکن تھا کہ ٹرمپ دونوں کو اپنے دائیں بائیں بٹھاتے ہوئے عالمی میڈیا کے سامنے اپنی امن پسندی کا ڈھول پیٹ رہے ہوتے انڈین پرائم منسٹر کو شاید اس کا احساس ہوگیا تھا اس لیے وہ بہانہ ڈال کرنکل گئے۔ اس وقت پاکستانی ڈیموکریسی کا مرثیہ لکھنے پر سینے میں ایک طوفان موجزن ہے لیکن کالم میں کرنٹ افیئر کا سلگتا ایشو ’’ایران اسرائیل جنگ‘‘اس قدر اہم ہے کہ کچھ بھی اور لکھنا صلاحیتوں کا ضیاع لگ رہا ہے۔ میرے عزیزو! اس وقت کی جنگی آگ اور تپش سے امید کی ایک کرن ابھری ہے یہ کہ وہ امریکی صدر جو جنگ میں براہِ راست کودنے کے لیے جی 7سمٹ کو بھی ادھورا چھوڑ کر واشنگٹن کے سچویشن روم کی میٹنگ میں پہنچا تھا اپنی قوم اور اپنے عالمی اتحادیوں کے دباؤ پر بالآخرسفارت کاری کو دو ہفتے دینے پر آمادہ ہوگیا ہے جس سے امید باندھی جاسکتی ہے کہ شاید خون خرابے اور تباہی و بربادی کی بجائے امن و سلامتی کی کوئی راہ نکل اُٹھے۔اس وقت کی زمینی صورتحال یہ ہے کہ امریکا نے مڈل ایسٹ میں اپنی عسکری طاقت غیر معمولی حد تک بڑھادی ہے جوہری توانائی سے چلنے والے طیارہ بردار بحری جہاز، جنگی طیارے فضا میں ایندھن بھرنے والے طیارے، فضائی دفاعی نظام اور مختلف ممالک میں موجود فوجی اڈوں کی مکمل فعالیت ہوچکی ۔اٹلی اور یورپ سے ہیوی جنگی طیارے پرنس سلطان ائیر بیس اور مڈل ایسٹ کی دیگر امریکی بیسز پر منتقل کردیے گئے ہیں جو خطے کی فضاؤں میں مشقوں پر ہیں امریکی بنکر بسٹربموں کا بڑا ٹارگٹ ایرانی فردوفیول انرچمنٹ پلانٹ ہے جو تہران کے جنوب مغرب میں 95کلومیٹر پر ایک پہاڑ کے اندر 90میٹر یا تین سو فٹ کی گہرائی میں ہے جس کا توڑ دنیا میں صرف امریکی بمبارہیوی طیارہ اور بنکربسٹر بم ہے جس کا وزن تیس ہزار پاؤنڈ بیان کیاجارہا ہے جو زمین میں دو سوفٹ نیچے تک مارکرسکتا ہے اس میں چھ ہزار پاؤنڈ کا دھماکہ خیز وار ہیڈ نصب ہوتا ہے امریکی ایئرفورس کا اسٹیلتھ بمبار ایک وقت میں ایسے دو بنکر بسٹر لے جاسکتا ہے۔

امریکا پاکستان سے اڈے لینے میں تو شاید کامیاب نہیں ہوسکا لیکن ایسی جنگی صورتحال میں اسے غیر جانبدار رکھنے میں ضرور کامیاب ہوگیا ہے ہمارے وزیرخارجہ کی پارلیمنٹ میں وضاحت اور جنرل صاحب کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی تفصیلات اس حوالے سے ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

دوسری طرف پریذیڈنٹ ٹرمپ پر ان کے اپنے ہی حلقے سے اس نوع کے سوالات کی بھرمار ہے کہ آپ تو جنگوں کو روکنے کا نعرہ لگا کر برسرِاقتدار آئے تھے اب اس کے خلاف جانا کیوں چاہ رہے ہیں؟ ان کے یورپین اتحادی بالخصوص فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی طرف سے بھی خاصا دباؤ ہے کہ جنگ کی طرف بڑھنے سے پہلے سفارت کاری کو مناسب موقع ملنا چاہیے جینوا میں ایرانی وزیرخارجہ کے ساتھ اس حوالے سے ان یورپین ممالک کی ملاقات بھی ہورہی ہے۔ مڈل ایسٹ میں موجود عرب اتحادیوں کا بھی دباؤ ہے او آئی سی بھی استنبول سے سفارت کاری کو موقع دینے کی آواز اٹھارہی ہے چائینہ اور رشیا کا بھی یہ مطالبہ ہے۔ امید باندھی جاسکتی ہے کہ پندرہ روزہ سفارت کاری ایران کو جوہری پروگرام کے مطلوبہ امریکی مطالبے یا سمجھوتے پر مجبور کردے گی۔ رہ گیا رجیم چینج کا مطالبہ اگر مناسب وقت دیا گیا تو وقت کے ساتھ وہ خود ہی پورا ہوجائے گا لیکن سپریم لیڈر کو ٹارگٹ کرنے کی صورت میں ایران رجیم چینج کی بجائے بدترین خانہ جنگی کا شکارہوسکتا ہے جسے سنبھالنا عالمی برادری کے لیے دوسرا بڑا مسئلہ بن جائے گا ۔

تازہ ترین