• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملتان آندھیوں کی زد میں ہے مگر کوئل کی کوک آموں کے باغوں میں عجب بلاوا ہے تو الوداع کہنے کا وہ اندازبھی جس سے آموں کے باغ بان صدیوں سے مانوس ہیں۔یہی بلاوا ملتان میں افغانستان سے وہ ٹرالر لے آیا جن سے سڑکوں کی بار بار تعمیر کے ٹھیکوں سے چاندی کمائی گئی ۔تب پشتو بولنے والے آتے تھے وہ باغبانوں سے زیادہ بےخروں سے بات کرتے تھے اور سارے آم ٹرالروں میں بند ہو کے افغانستان ، ترکمانستان اور وسط ایشیا تک چلے جاتے پاکستان کو زر مبادلہ ملتا اور ہمیں وہ آم ملتے جو ٹپکا ہوتے یا ہمارے نصیب کی طرح داغی ہوتے ۔ غالب نے ملتانی لنگی کی بات تو کی مگر ملتان کے آم ان تک نہیں پہنچے وگرنہ رام پوری پٹھانوں کو پتہ ہوتا جو ابتدا میں آم کے پودے ملتان میں لائے تھے وہی مرزا غالب کو آم دلی میں پہنچاتے جو پھوڑوں پھنسیوں کی پروا کئے بغیر کہتے تھے کہ آم میٹھے ہوں اور بہت سے ہوں پھر جاپانی ملتان کی مدد کو آئے انہوں نے ایک ایک آم کو گرم پانی سے صاف کرنے کے تین پلانٹ لگا کے دئیے جس کے بعد ملتان کے آم برآمد کرنے والوں کے لئے سونا بن گئے اسی کے بعد ہمارے ملتان کے بڑے باغبانوں کو ایف بی آر کے ساتھ ساتھ قرض مانگنے والوں سے بھی خوف آنے لگا ۔ آپ نے دنیا میں بہت سے خوش اخلاق دیکھے ہوں گے مگر جس نے قرض مانگنا ہو اس سے میٹھا شاید آم بھی نہیں ہوتا ۔اس پر مجھے طالب علمی کا زمانہ یاد آتا ہے تب ملتان میں اردو ٹائپ رائٹر بھی نہیں ہوتا تھا اور ہمیں لاہور میں بیٹھ کر پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ تصنیف و تالیف کے ایک ' جادوگر ' سے اپنے تھیسس ٹائپ کرانے ہوتے اور وہ ہمیں اور زیادہ ترساتے اور تڑپاتے جاتے یہ کہہ کہہ کے اگر کچھ پہلے آجاتے تو آپ کے ایم اے کے دو ممتحنوں نے اپنے پرچے مجھے ہی چیک کرنے کو دیئے تھے ۔ لاہور کے ایک سعادت مند نے نشانی بتائی تو میں نے ان کی کشتی پار لگائی دیکھ لینا وہ یونیورسٹی میں اول آئیں گے ۔

ہم لوگ دل بہلانے کو پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل سیکشن میں چلے جاتے ہم ملتانیوں کو اپنے ایک استاد کی سفارش پر پنجاب یونیورسٹی نے کارڈکی بجائے ریڈرز ٹکٹ دیا جہاں ایک بہت خوش شکل اور میٹھے اہل کار تھے دو ایک مرتبہ انہوں نے قرض مانگنے کی تمہید باندھی تو ہم نے انہیں بتایا کہ ادھر تو آپ کو غالب کے شعر سنا سکتے ہیں جس نے ہوس زر سے منع کیا تھا

غارت گر ناموس نہ گر ہوس زر

کیوں شاہد گل باغ سے بازار میں آوے

پھر وہ مایوس ہوئے تو زیادہ تر نرم دل لڑکیوں کی جانب متوجہ ہو گئے ۔ان کا تکیہ کلام تھا کچھ 'باہمی دلچسپی ' کی باتیں کرنی ہیں ۔

ایک وقت تھا کہ پاکستان سے کوئی حکمران بتاتا نہیں تھا کہ وہ باہمی دلچسپی کے کس موضوع پر بات چیت کرنے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، قطر یا کویت جارہے ہیں مگر سب کو پتہ تھا کہ مقروض کی باوسائل سے باہمی دلچسپی کا موضوع کیا ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین