• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرق وسطیٰ میں ایران اسرائیل سیزفائر کے بعد جنگ کے اُمنڈتے بادل چھٹنا شروع ہوگئے ہیں اور میرے جیسے دنیا بھر کے امن پسندپُرامید ہیں کہ عنقریب خدا کی دھرتی امن کا گہوارا بن جائے گی، تاہم سوشل میڈیا سمیت عالمی ذرائع ابلاغ پر نت نئی سازشی تھیوری منظرعام پر آرہی ہیں،میںنےاپنے گزشتہ ہفتہ وار کالم میں اسرائیلی اخبار کی گُمراہ کن رپورٹ پر تبصرہ کیا تھا،قبل ازیں یہی صورتحال گزشتہ ماہ مئی میں پاک بھارت فضائی جھڑپوں کے دوران دیکھنے میں آئی تھی،بھارتی میڈیا کے پراپیگنڈے کا تو خود عالمی میڈیا نے نوٹس لیا کہ کیسے بھونڈے انداز میں فیک نیوز کا سہارا لیکر گمراہ کُن رپورٹنگ کی گئی۔ تاہم موجودہ عالمی تنازعات کے تناظر میں بین الاقوامی بیانیہ کی جنگ میں ایک ایسے قدیمی اصول دشمن کا دشمن دوست کی گونج ایک مرتبہ پھر سنائی دی جوصدیوں سے مشترکہ خطرات کا باہمی مقابلہ کرنے کیلئے نظریاتی، مذہبی، جغرافیائی اور سیاسی اختلافات کو نظرانداز کرنے کی تلقین کرتا ہے۔سب سے پہلے ریاستی سطح پر اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے دشمن کے کسی اور دشمن سے وقتی طور پر ہاتھ ملانے کا تصور آج سے ہزاروں سال پہلے قدیم ہندوستان کے مہان فلسفی کوٹلیہ چانکیہ نے پیش کیا، موجودہ پاکستان کے تاریخی شہر ٹیکسلا کے باسی چانکیہ نے اپنی کتاب ارتھ شاسترمیں منڈلہ تھیوری پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔یہ اصول قدیم کی ہندوستان کی ریاستی سفارت کاری میں ہی نمایاں نہ رہا بلکہ اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو دنیا کی ہر ریاست نے اپنی سفارت کاری میں یہی اصول اپنایا، قدیم یونان میں مدمقابل ایتھنزاور اسپارٹا نے ایک دوسرے کے دشمنوں سے سیاسی و دفاعی اتحاد قائم کئے، اسی طرح اسلامی دورِ خلافت، بازنطینی،فارسی اور چینی سلطنتوں نے بھی مشترکہ خطرات کے تدارک کیلئے اپنے سے مختلف نظریات رکھنے والوں کو اپنا دوست بنایا۔ہندوستان میں جب انگریزسامراج نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کئے تو یہاں کے مقامی حکمرانوں نے انگریز کا مقابلہ کرنے کیلئے انگریز کے دشمن فرانس کی جانب دیکھنا شروع کیا، اسکی سب سے بڑی مثال ریاست ِ خداداد میسور کے حکمران ٹیپو سلطا ن کی پیش کی جاسکتی ہے جس نے فرانس کے ساتھ دفاعی اتحاد قائم کیا۔ سترہویں صدی میں ریاستی خودمختاری کا تصور سامنے آیا، ایسے موقع پر بھی طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے جس تصور نے تقویت حاصل کی وہ چانکیہ کا بیان کردہ دشمن کا دشمن دوست تھا۔اسی اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے دور کی سپرپاور سلطنت عثمانیہ نے مذہبی طور پر مختلف نظریے کے حامل فرانس کے ساتھ ملکر دیگریورپی ریاستوں کے خلاف طاقت کا توازن برقرار رکھا۔ دورِ جدید میں اس قدیمی اصول نے اپنی افادیت ہر اس موقع پر منوائی جب عالمی برادری کو کسی تنازع کا سامنا کرنا پڑا، پہلی جنگ عظیم کے دوران ایک دوسرے کے مخالف برطانیہ، فرانس اور روس اپنے قومی مفادات کے حصول کی خاطر جرمنی اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دوست بن گئے، دوسری طرف سلطنتِ عثمانیہ نے برطانیہ، فرانس اور روس کے مخالفین کے ساتھ اپنا دفاعی اتحاد قائم کرلیا۔سفارت کاری کے محاذ پر یہی صورتحال دوسری جنگ عظیم کے موقع پر دیکھنے کو ملی جب کیپٹل ازم نظریہ کے علمبردار امریکہ نے ہٹلر کی زیر قیادت نازی جرمنی کو شکست دینے کیلئے کمیونسٹ سویت یونین کو ساتھ ملا لیا، تاہم پھر اپنے ماضی کے اتحادی سویت یونین نے دشمن کا روپ دھارا تو امریکہ نے افغانستان میں عسکری گروہوں کی مدد شروع کردی، بعد ازاں یہی افغان عسکریت پسند نائن الیون کے بعد امریکہ کے دشمن قرار پائے۔ مشرق وسطیٰ جنگی بحران کا شکار ہوا تو ہر ملک نے اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارتی حکمت عملی مرتب کرنا شروع کردی، ایک طرف امریکہ عراق اور شام میں کُرد عسکریت پسندوں کی حمایت کرتا ہے تو دوسری طرف امریکہ کا اہم نیٹو اتحادی ترکیہ کردوں کو اپنی قومی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتا ہے، سرد جنگ کے زمانے میں بھارت امریکہ کے مخالف سویت یونین کا اہم اتحادی تھا، تاہم آج امریکہ سمیت مغربی قوتیں چین کا گھیراؤ کرنے کیلئے بھارت سے دوستی چاہتے ہیں، کم و بیش ایسی ہی صورتحال عالمی تجزیہ نگار ایران کے حوالے سے ایک دوسرے کے کٹر مخالف اسرائیل اور خلیجی ممالک کی ہے، اسی طرح ایران مختلف نظریہ رکھنے والے فلسطینی و عرب گروہوں کو ساتھ ملا کر مشترکہ ہدف اسرائیل کے خلاف محورِ مزاحمت کا سرپرست ہے۔ دشمن کا دوست دشمن کے حوالے سے ایسی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ آج کی جدید سفارتکاری کے اہم جز احتیاط، حقیقت پسندی اور توازن ہیں، دورِ حاضر کے سفارتی محاذ میں کامیابی کا حصول قومی مفادات کے حصول کیلئے واضح حکمت عملی اور درست وقت پر درست فیصلے کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔میری نظر میں عالمی سفارت کاری کے میدان میں دوست اور دشمن کبھی بھی ہمیشہ نہیں رہتے، ماضی کے دوست دشمن کا روپ دھار لیتے ہیں جبکہ قومی مفادات کی خاطر دشمن سے بھی ہاتھ ملانا پڑسکتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادی سویت یونین کا ایک دوسرے کاکٹر دشمن بنکر عالمی منظر نامہ پر اُبھرنا ثابت کرتا ہے کہ عارضی اور وقتی مفادات کیلئے بنائے گئے اتحاد ریت کے گھروندے ہوتے ہیں جنکے دیرپا نتائج بعض اوقات انتہائی مہلک اور تناؤ کا باعث بنتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج اکیسویں صدی میںسوشل میڈیا نے عام آدمی کو اتنا زیادہ باشعور کردیا ہے کہ اب ریاستوں کیلئے فقط دشمن کا دشمن دوست کی بنیاد پر مفادپرستی پر مبنی پالیسیاں اختیار کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے، آج عسکری میدان میں جنگ برپا ہونے سے پہلے ہی میڈیا کے میدان میں جنگ چھِڑجاتی ہے، بیانیہ کی اس جنگ میں وہی فاتح قرار پاتا ہے جو اخلاقی معیار، اصول اور رائے عامہ کو فوقیت دیتا ہے،میری نظر میں جب کوئی ملک دشمن کے دشمن لیکن ظالم و قابض قوتوں کو دوست بناتاہے تو اسکی اپنی اخلاقی ساکھ بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔

تازہ ترین