ولادی میر لینن نے کہا تھا’’ کچھ عشرے ایسے ہوتے ہیں جب کچھ بھی واقع نہیں ہوتا اور کچھ ہفتے ایسے ہوتے ہیں جب عشرے رونما ہونے لگتے ہیں ۔‘‘
مئی جون میں ایسے ہی ہفتے آئے جب کیا کچھ نہیں رونما ہوا ہمارے خطے میں ہمارے علاقے میں اور عالمی افق پر۔ان تین چار ہفتوں میں بہت کچھ ہو گیا ہے بہت خطرناک۔خون بھی بہا ہے اور اسکے نتیجے میں آئندہ دو تین ماہ بھی ایسے ہی خطرناک ہو سکتے ہیں علاقے میں بھی آگ بھڑک سکتی ہے اور مشرق وسطی میں بھی پھر آتش و آہن کی بارش ہو سکتی ہے کیونکہ وائٹ ہاؤس میں ایک غیر متوازن فکر والا صدر بیٹھا ہے۔ مغرب میں اسکے ہم نوا اس سے بھی زیادہ غیر سنجیدہ ہیں یورپ میں جمہوریتیں ہیں منتخب رہنما ہیں لیکن دنیا جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اسکی رفتار سے مطابقت رکھنے والے لیڈر نہیں ہیں۔ خود کار سسٹم سے اگر آپ کے ملک میں زندگی کی آسانیاں میسر آگئی ہیں تو فکر کی حد ختم نہیں ہو سکتی ان ملکوں کو دوسرے ملکوں کے بارے میں سوچنا چاہیے اپنا سکون اور استحکام ان ملکوں میں بھی منتقل کریں۔ پہلے جس طرح برطانیہ ،فرانس، ہالینڈ، پرتگال امیر بستیوں کو لوٹنے نکلتے تھے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ ان لٹے ہوئے ملکوں میں انسانوں کو غربت ،بے روزگاری اور جو دوسری مشکلات لاحق ہیں، یہ سابق سامراجی ممالک ان کے حالات بھی درست کریں۔ مجھے تو بہت سے خدشات ہیں کہ آئندہ ششماہی بہت سی قیامتیں اپنی مٹھی میں لے کر آ رہی ہے۔ بہت کچھ ہونے والا ہے ۔ہمارا علاقہ براہ راست اس کی زد میں آسکتا ہے۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں ،نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن ۔ساری ہونیوں انہونیوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لمحات۔ یوٹیوب سوشل میڈیا ہماری اولادوں کو یقیناً باخبر بھی رکھ رہا ہے مگر اس سے زیادہ انہیں اضطراب اور کرب میں مبتلا کر رہا ہے۔ ہمارے حکمران تو خود بے خبر ہیں اور از خود غافل رہنے میں ہی بہتری سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ عوام کو بھی کھل کر کچھ نہیں بتاتے۔غیر ملکی قرضے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ ہمارا میڈیا جتنا اس کو بتایا جاتا ہے اتنا ہی بلکہ اس سے کم ہمیں بتاتا ہے ہمیں سوچنا ہےکہ کن شعبوں میں زیادہ حادثات ہونے والے ہیں ۔افسوس یہ ہے کہ ہماری قومی سیاسی پارٹیاں بھی بے خبری کو اپنے لیے غنیمت خیال کرتی ہیں۔ ہمارے آس پاس اتنا کچھ ہو رہا ہے اور مئی میں آتش و آہن کا مظاہرہ خود ہمارے شہروں میں ہو چکا لیکن کسی پارٹی نے اپنی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس بلا کر مشاورت نہیں کی ۔ وہ خود کو آگاہ رکھنے سے ڈرتی کیوں ہیں۔ اپنے کارکنوں کو اعتماد میں لینے سے جھجکتی کیوں ہیں۔ ملک کو مکمل جمہوری بنانے میں وہReluctantکیوں ہیں۔ پرانے نظریے بے نتیجہ ہو رہے ہیں امور مملکت چلانے کیلئے حالیہ جمہوری نظام بھی ناکام ہو رہا ہے ۔
آئیے اپنی اولادوں کے سامنے تازہ ترین حقائق رکھیں ۔سب سے بڑا سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا 78 سالہ فسوں ٹوٹ چکا۔ اب کے جنگ کی آگ تل ابیب کے فلک بوس اپارٹمنٹس میں بھی نظر آئی ۔یہ بھی آسمان کی آنکھ نے دیکھا کہ لاشیں یروشلم میں بھی گر سکتی ہیں اور وہ بھی اسرائیلیوں کی۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ سپر طاقت امریکہ کا طنطنہ بھی ریزہ ریزہ ہو گیا۔ دنیا نے دیکھا کہ اس کے ہیبت ناک اڈے بھی میزائلوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں بظاہر روس، چین ،یورپی یونین قابل ذکر نہیں رہے۔ عالم عرب کی حیثیت تو بڑے شہروں میں کچی آبادیوں کی سی ہو گئی ۔اسلامی دنیا بے معنی رہی ۔ان سارے ہنگاموں میں انڈونیشیا ملائشیا اور ترکی بھی لا تعلق رہے۔ صرف ایک اسلامی ملک ایران ایک عسکری طاقت بن کر ابھرا یہ بھی ثابت ہوا کہ عالمی اور امریکی پابندیوں میں رہتے ہوئے بھی اپنے گھوڑے تیار رکھے جا سکتے ہیں۔ ایران نے اسرائیل کو برباد کیا امریکہ کو للکارا ۔جنگ کی آگ پاکستان کی سرحدوں سے کچھ دور ہی رہ گئی ہے۔ اب ہمیں بحیثیت ایک قوم اور ایک جغرافیائی وحدت کے طور پر سوچنا ہے کہ پاکستان کو کیا کیا خطرات ہیں اور اس خطے میں کیا کیا سیاسی سفارتی اقتصادی امکانات ہیں ۔کیا ہمیں اور دوسرے اسلامی ملکوں کو ایران سے کچھ سبق حاصل کرنا چاہیے ۔چین نے سعودی عرب اور ایران میں سفارتی قربتیں پیدا کی تھیں کیا وہ ابھی باقی ہیں یا کمزور ہوگئی ہیں۔
اب ہماری اولادیں پوچھ رہی ہیں کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے جس سے ہم اپنے آپ کو آئندہ خطرات سے محفوظ رکھ سکیں کیا بھارت پھر جا رحیت کر سکتا ہے کیونکہ مودی کو اب بھی آئندہ انتخابات میں شکست کے خدشات ہیں۔
کیا پاکستان میں موجودہ سیاسی نظام ہی چلتا رہے گاجسےباہر کی دنیا نہ تو مکمل پارلیمانی کہہ رہی نہ مکمل جمہوری ۔پاکستان نے دفاعی طور پر اپنی خود مختاری ثابت کر دی ہے کیا اب ہمیں اپنی اقتصادی ،سماجی، علمی ،تہذیبی ،آئینی ،عدالتی اور ٹیکنیکل خود مختاری کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے ۔اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا ایران حالیہ انہونیاں دیکھ کر بھارت پر انحصار ختم کرئیگا۔ کیا افغانستان بھی بھارت کے غلبے سے آزاد ہوگا۔ کیا ہمیں اپنے طور پر ایران افغانستان سے تعلقات میں مزید بہتری اور استحکام کیلئے خصوصی طور پر سرگرم نہیں ہونا چاہیے۔ چار روزہ جنگ کے بعد انڈیا سے جن امن مذاکرات کی بات کی جا رہی تھی وہ تو اب تک شروع نہیں ہوئے۔ سندھ طاس معاہدہ بھی بحال نہیں ہوا ۔کیا انڈیا سے تجارت کیے بغیر ہماری بقا نہیں اور کیا انڈیا سے کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر ہمیں تجارت کرنی چاہیے۔
ایک سوال پر ہمیں اپنے عوام سے بھی مشورہ کرنا چاہیے اور سفارتی سطح پر اپنے دوست ممالک سے بھی کہ علاقائی تعاون کی تنظیم سارک جو اب تک چل ہی نہیں سکی اسے خیر باد کیوں نہ کہا جائے ۔پاکستان اپنے مسائل کے حل کیلئے، اقتصادی ترقی کیلئے کوئی نیا علاقائی معاہدہ کیوں نہ کرے جس میں چین ،ایران، افغانستان، ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستیں تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، آذربائیجان، بیلاروس وغیرہ شامل ہوں ۔
کیا امریکہ کو اس نئے علاقائی اتحاد پر کوئی اعتراض ہوگا۔چین تو پہلے ہی ایک پٹی ایک سڑک کے ذریعے ایسے معاہدوں کی طرف گامزن ہے۔
وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت کے امکانات پر تحقیق بھی ہونی چاہیے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات پر ہماری معیشت کا انحصار بجا مگر ہمیں ملک میں مینوفیکچرنگ کی طرف بھی قدم بڑھانے چاہئیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون ،پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف ،جمعیت علمائے اسلام ، متحدہ قومی موومنٹ کو اپنی مرکزی میٹنگوں میں ان نئے متبادل امکانات پر غور کر کے اپنی پالیسی وضع کرنی چاہیے اور پھر اس پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث کی جائے۔