• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎عربی زبان کا معروف محاورہ ہے ”من کثرکلامہ کثر خطاؤہ“ جو جتنا زیادہ باتونی ہوگا اتنی ہی اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہونگی۔ ٹرمپ انوکھے امریکی صدر ہیں جو کسی بھی ایشو پر بےتحاشا بولتے ہیں، بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن پھر ٹھس ہوجاتے ہیں۔‎وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی دعویٰ کیا کہ میں رشیا یوکرین جنگ فوری طور پر ختم کراؤں گا زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس بلاکر جس طرح ذلیل کیا اس کا اثر الٹا نکلا،پیوٹن امریکا و یورپ کے خلاف مزید شیر ہوگیا۔ حماس کو دھمکی دی کہ میرے حلف اٹھانے سے پہلے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردو، نہیں تو میں غزہ کو تمہارے لیے جہنم بنادوں گا لیکن شنید ہے کہ7 اکتوبر 2023ء کے یہ یرغمالی ہنوز حماس کی قید میں ہیں۔ ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دی کہ غیر مشروط سرنڈر کردو نہیں تو میں تمہارا حشر نشر کردوں گا لیکن انہوں نے امریکہ کے لاڈلے بچے اسرائیل کی وہ دھلائی کی کہ ٹرمپ کو دن میں تارے نظر آنے لگے، فردو کی ایرانی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنا اسرائیل کے بس میں نہیں تھا اس پرٹرمپ کو اپنے بھاری بمبار بمبربسٹر کا استعمال کرنا پڑا اور ہیگ کی نیٹو سمٹ میں کہا کہ میں نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بمباری کرواکےجنگ رکوائی ہے۔ اب اس کا اپنے میڈیا سے جھگڑا چل رہا ہے کہ ایرانی ایٹمی تباہی پوری ہوئی یا ادھوری؟ٹرمپ ایرانی ایٹمی پروگرام کی کلی تباہی کا جتنا بڑا دعویٰ کررہے ہیں وہ درست نہیں، ایٹمی تنصیبات کی تباہی ضرور ہوئی ہے لیکن ان حملوں سے پہلے خود امریکیوں نے ایرانیوں کو آگاہ کردیا تھا جس پر وہ چار سو کلو افزودہ یورینیم کو نکال کر محفوظ مقام پر لے گئے۔ اس ساری بحث میں جائزہ لیا جائے تو امریکیوں کا اصل ایشو خمینی یا خامنہ ای رجیم ہے ورنہ ایران تو وہی ہے جسے شاہ کے دور میں خود امریکی صدر آئزن ہاور نے جوہری ٹیکنالوجی مہیا کی تھی ۔ٹرمپ تو ویسے بھی جنگوں کیخلاف ہیں یا پھر فرینڈلی وار پر یقین رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایران پر حملوں سے قبل ایرانیوں کو آگاہ کر دیا، پھر قطر کے ذریعے خود ایرانیوں سے معاملات طے کیے، انہیں اپنا غصہ نکالنے کا پورا موقع دیا کہ وہ دوحہ میں امریکی فوجی اڈے پر اتنے ہی میزائل پھینکیں جتنے امریکیوں نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پربم مارے۔ ‎اس کے بعد قطر کو آگے کرتے ہوئے ایران کی اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ جنگ بندی کروائی،جسکی اسرائیلیوں نے خلاف ورزی کی تو انہیں ڈانٹ کر روک دیا ۔اسرائیلی ایران کےسپریم لیڈر خامنہ ای کو بھی مارنا چاہتے تھے ٹرمپ نے خفیہ ٹھکانہ معلوم ہونے کے باوجود ایسا کوئی بھی اقدام ہونے سے روک دیا بلکہ کھلے الفاظ میں اسرائیل کی مذمت کی کہ میں ایرانیوں سے بھی ناراض ہوں لیکن اسرائیلیوں سے زیادہ ناراض ہوں۔ ہیگ میں تو ایرانیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ’’ وہ عظیم قوم ہیں ، تہران جنگ کے بعد تعمیر نو کے لیے اپنا تیل نہ صرف چائینہ کو بلکہ جسے چاہے برآمد کرسکے گا ہم ایران پر عائد پابندیاں نرم کردیں گے، بس ایران کو ایٹم بم نہیں بنانے دیں گے، اگلے ہفتے ایران سے مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں‘‘ ایران میں رجیم چینج کے سوال پر بھی ٹرمپ کا جواب تھا کہ ایسا کرنے سے ایران میں تشدد اور انارکی شروع ہوسکتی تھی لہٰذا اسکی ضرورت نہیں تھی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جنگ ٹل گئی اور ہر فریق خود کو جیتا ہوا محسوس کررہا ہے دوسری طرف اسرائیلی نیوزپیپر کے حوالے سے انٹرنیشنل میڈیا کی رپورٹ ہے کہ پریذیڈنٹ ٹرمپ اور پرائم منسٹر نیتن یاہو کے بیچ اگلے دو ہفتوں کے اندر غزہ جنگ بندی کے حوالے سے ایکا ہوگیا ہے۔ ‎یہ واقعی بڑی اہم اور مثبت رپورٹ ہے کیونکہ ہمارے لوگ غزہ جنگ کے حوالے سے ایرانی قیادت پر یہ تنقید کررہے تھے کہ انہوں نے امریکی صدر کی تجویز پر جنگ بندی قبول کرتے ہوئے اسے غزہ کے ساتھ نتھی کیوں نہ کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق چار عرب ممالک جن میں متحدہ عرب امارات اور مصر بھی شامل ہیں، حماس کی جگہ غزہ میں مشترکہ کنٹرول سنبھالیں گے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرواتے ہوئے حماس قیادت کو جلاوطن کردیا جائے گا۔ غزہ سے نکلنے والے فلسطینیوں کو کچھ نامعلوم ممالک میں بسایا جائے گا سعودی عرب اور شام اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں گے دیگر عرب ممالک بھی ان کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔ امریکا ویسٹ بنک کے کچھ حصوں پر اسرائیلی اختیار تسلیم کرلے گا۔‎درویش کی نظر میں معاملات اتنے سادہ نہیں جس طرح اس مبینہ رپورٹ میں بیان کیے گئے ہیں۔ حماس کو ہٹا کر غزہ کا کنٹرول کس کے حوالے کیاجائے؟ عرب ممالک عمومی طور پر اس حوالے سے محمود عباس کی قیادت میں قائم ویسٹ بنک کی فلسطینی اتھارٹی کا نام پیش کرتے رہے ہیں الفتح اور حماس کی اندرونی لڑائی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل غزہ کوفلسطینی اتھارٹی کی بجائے ہمسایہ عرب ممالک کی نگرانی میں دیتے ہوئے معاملہ آگے بڑھانا چاہتا ہے، دیکھا جائے تو اس سلسلے میں مصر کے ساتھ جارڈن اور سیریا کو شامل کیاجاسکتا ہے۔تاہم اپنی جگہ یہ حقیقت ہے کہ اتنی بربادیوں کے باوجود ہنوز غزہ سے حماس کی طاقت کا کلی خاتمہ نہیں ہوسکا ۔ صدر ٹرمپ کے سامنے اس وقت کا چیلنج یہ ہے کہ وہ عرب ممالک کو آگے کرتے ہوئے غزہ ایشو کو جیسے تیسے حل کروائیں اب تو حماس کو ایران کی وہ مدد بھی حاصل نہیں رہی ہے نہ حزب اللہ کی کوئی ایسی پوزیشن رہی ہے، لہٰذا یہ مناسب وقت ہے کہ غزہ سے تشدد کا خاتمہ کرتے ہوئے یہاں کے باشندوںکے دکھوں کا مداوا کیاجائے۔

تازہ ترین