• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواجہ آصف نہایت دلیر سیاستدان ہیں ،ترنگ میں آکر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو انکے ہم عصر رہنما سوچ بھی نہیں سکتے۔کچھ دن پہلے انہوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ پاکستان میں کوئی مثالی جمہوریت نہیں، موجودہ نظام حکومت ’’ہائبرڈ سسٹم ‘‘ ہے اور یہ ماڈل کامیابی سے چل رہا ہے ۔اس بیان پر انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے ۔ایک طرف تحریک انصاف کے رہنمائوں نے اس بیان کو جمہوریت کی توہین قرار دیا تو دوسری طرف انکی اپنی جماعت کے بعض ارکان پارلیمنٹ بھی ناخوش ہیں کیونکہ ہمارے ہاں حقیقت کا سامنا کرنے کاچلن نہیں بلکہ ہم تخیلاتی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں ۔تاہم آگ کو کاغذ سے نہیں ڈھانپا جاسکتا۔پاکستان میں مثالی جمہوریت تو کبھی نہیں رہی البتہ 2018ء سے مکمل طور پر ہائبرڈ ماڈل چل رہا ہے اور اسکی ابتدا ’’نئے پاکستان ‘‘سے ہوئی ۔تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ،سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیانا ت اور انٹرویوز ریکارڈ پر موجود ہیں ۔’’RTS‘‘کے ذریعے برسراقتدار آنے والوں کے منہ سے فارم 47کی باتیں اچھی نہیں لگتیں ۔جو خود ’’سلیکٹڈ ‘‘ تھے وہ ’’اردلی ‘‘کی پھبتی کسیں تو یہ بذات خود سنگین مذاق ہے ۔موجودہ ارباب اقتدار کو کم ازکم یہ کریڈٹ تو دیں کہ وہ جمہوریت کی ملمع کاری اور ’’ریاست مدینہ‘‘کی شعبدہ بازی نہیںکرتے بلکہ کھلے دل سے اعتراف کررہے ہیں کہ یہ ’’ہائبرڈ ماڈل‘‘ ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ہائبرڈ نظام ہوتا کیا ہے۔

آپ نے ہائبرڈ گاڑیوں کے بارے میں تو سنا ہوگا بلکہ پاکستان میں اب ایسی گاڑیاں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔یہ ایک ایسی کار ہوتی ہے جو مختلف اقسام کی توانائی کو بروئے کار لاتی ہے ۔اس میں بطور ایندھن پیٹرول یا ڈیزل تو استعمال ہوتا ہی ہے مگر ایک الیکٹرک موٹر لگی ہوتی ہے۔شروع میں جب آپ گاڑی اسٹارٹ کرتے ہیں تو مخصوص رفتار تک گاڑی بیٹری پر چلتی ہے مگر جب آپ رفتار بڑھاتے ہیں یا پھر گاڑی کو چڑھائی کے سبب زیادہ زور لگانا پڑتا ہے تو انجن اور الیکٹرک موٹر ملکر کام کرتے ہیں یوں ہائبرڈ گاڑیوں میں ایندھن کی بچت ہوتی ہے اور کم خرچ میں آپ زیادہ سفر کرسکتے ہیں۔اگر لغت کی بات کریں تو حیاتیاتی اعتبار سے ہائبرڈبد ذات اور دو نسلی مخلوق کو بھی کہتے ہیں مگر اس کیلئے دوغلی نسل کا لفظ زیادہ موزوں سمجھا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر جب گھوڑے اور گدھے کا ملاپ ہوتا ہے تو خچر وجود میں آتاہے اسکے علاوہ بھی دوغلی نسل کے کئی جانورموجود ہیں۔کاشتکاری کی بات کریں تو محکمہ زراعت چاول ،گندم،مکئی اور سبزیوں سمیت کئی زرعی اجناس کے ہائبرڈ بیچ متعارف کرواچکا ہے جنکی نہ صرف پیداوار معمول سے بڑھ کرہوتی ہے بلکہ فصل تباہ کرنے والے کیڑوں کے مقابلے میں انکی قوت مزاحمت بھی زیادہ ہوتی ہے ۔

ہائبرڈ کی اصطلاح ہرگز نئی نہیں ۔’’نئے پاکستان‘‘میں جب ’’ففتھ جنریشن ہائبرڈ وارفیئر‘‘کا تصور متعارف کروایا گیا تھا تو اس کا ترجمہ پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کیا گیا۔سیاسی مفکرین کے مطابق ہائبرڈ نظام اس ملی جلی سرکار کو کہتے ہیں جس میں اختیارات بظاہر تو منتخب سول حکومت کے پاس ہوتے ہیں مگر زمینی حقائق کے پیش نظر انہیں اسٹیبلشمنٹ استعمال کرتی ہے تاکہ قانونی پیچیدگیوں اور آئینی موشگافیوںکی خاردار جھاڑیوں سے بچ کر درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔اس ہائبرڈ ماڈل کے پیش نظر یہ منطق ہوتی ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کا ترقی یافتہ مہذب ممالک کے جمہوری نظام سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہمارے مسائل اور وسائل مختلف ہیں لہٰذا جو اصول وہاںمتعین کیے جاتے ہیں ،ان کا اطلاق یہاں کرکے منزل کا حصول ممکن نہیں۔اور پھر غربت و تنگدستی اور بیروزگاری و مہنگائی کا شکار عوام کو اس بات سے کیا غرض کہ وطن عزیز میں کونسا نظام اور ماڈل رائج ہے ،وہ تو بس یہی چاہتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں ۔صحت ،تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی میسر ہوں ۔دنیا کے کئی ممالک میں ہائبرڈ نظام حکومت متعارف کروایا گیا ۔مثال کے طور پرایران،میکسیکو ،ہنگری، نائجیریا،تنزانیہ ،روس اور وینزویلا کے نظام حکومت کو کسی حد تک ہائبرڈ سسٹم کہا جاسکتا ہے ۔ان سب ممالک میں طاقت کے ایک سےزائد مراکز ہیں ۔اگر ہم اپنے ہمسایہ ممالک کی بات کریں توبنگلہ دیش میں کسی حد تک یہ ہائبرڈ نظام نافذ رہا اور آج بھی کام کررہا ہے ،اسی تناظر میں گاہے گاہے بنگلہ دیش ماڈل کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔

پاکستان میں ہائبرڈ سسٹم آف گورننس کی باتیں پہلے بھی کی جاتی رہی ہیں۔بالخصوص جنرل ضیاالحق کی وفات کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو شراکت اقتدار کے کئی فارمولے پیش کیے گئے ۔نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کی تجویز جس پر آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے لیا گیا ،وہ بھی ہائبرڈ نظام کی ہی ایک شکل تھی ۔شاید آپ کو یاد ہوکہ جب جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر عنان اقتدار پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے قومی سلامتی کونسل تشکیل دی مگر اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور بات نیشنل سکیورٹی کونسل سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ماضی میں سیاسی رہنما اس شراکت داری کی شدید مخالفت کرتے ہوئے سویلین بالادستی کی جدوجہد کرتے رہے ہیں اورمسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نوازشریف نے تیسری بار وزیراعظم آفس سے نکالے جانے پر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کا بیانیہ بنایا ۔لیکن اب انکے قریبی ساتھی خواجہ آصف کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان معیشت اور طرز حکمرانی کے بحران سے نہیں نکل جاتا،ہائبرڈ نظام ہماری عملی ضرورت ہے ۔خواجہ آصف نے یہ بھی فرمایا کہ اگر 1990ء کی دہائی میں ایسا ماڈل اپنایا جاتا توحالات بہت بہتر ہوتے۔خواجہ آصف نے جو فرمایا ،سب قوم کا سرمایا۔چونکہ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا گیا تھا اور آزادی کے بعد اب تک کئی طرز حکمرانی متعارف کروائے جاچکے ہیں تو ایک ماڈل اور سہی ۔دیکھتے ہیں یہ ہائبرڈ سسٹم آف گورننس کیا رنگ لاتا ہے۔

تازہ ترین