انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی موت کا سفر شروع ہو جاتا ہےکچھ لوگ مرنے کے بعد فراموش ہوجاتے ہیں اور کچھ امر ہوجاتے ہیں۔ ایسا کچھ کر جاتے ہیں کہ دنیا انہیں یاد کرتی ہے۔ ’’الفریڈ نوبل‘‘ بھی ان ہی میں سے ایک تھا ،اُس نے اپنی موت سے کچھ عرصے قبل ایک وصیت لکھی، جس کے مطابق اُس نے اپنی ساری دولت ایک فنڈ میں دے دی اور لکھا کہ ’’میری دولت ان لوگوں کو انعام کے طور پر دی جائے جو انسانیت کی خدمت کریں، علم میں اضافہ کریں اور دنیا میں امن قائم کریں۔‘‘
یوں وہ لمحہ امر ہوگیا، الفریڈ کی موت کے بعد، اس کی وصیت کے مطابق 1901ء میں پہلا نوبل انعام دیا گیا، اس کے بعد سے ہر سال چھ مختلف شعبوں میں نوبل انعام دیے جاتے ہیں، جن میں امن، ادب، طب، کیمیا، طبیعیات اور معیشت شامل ہیں۔ 1901ء سے 2025ء تک تمام شعبوں میں628 انعام دیے گئے، جن میں ایشیا کے تقریباً ’’65‘‘ افراد کو ملے، جب کہ ’’68‘‘ خواتین کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔
دنیا کاسب سے بڑا اعزاز ’’نوبل پرائز‘‘ حاصل کرنے والے ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے۔ اب تک امریکہ کی 353 شخصیات یہ اعزاز حاصل کرچکی ہیں، برطانیہ کی 116جرمنی کی 102، فرانس کی 66 اور بھارت کی 8شخصیات نے یہ اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان کی ملالہ یوسف زئی ’’نوبل امن پرائز‘‘ حاصل کرنے والی سولہویں اور دنیا کی سب سے کم عمرتھیں ۔ میری کیوری تا حال واحد سائنسدان خاتون ہیں جنہیں دو مرتبہ ’’نوبل پرائز‘‘ ملا۔
امن’’نوبل پرائز‘‘ حاصل کرنے والی خواتین میں ایران کی شیریں عبادی، برما کی آن سان سوچی اور بھارت کی مدر ٹریسا بھی شامل ہیں، دیگر اہم شخصیات میں امریکہ کے صدر بارک اوباما، جمی کارٹر، اقوام متحدہ کے سابق جنرل سیکرٹری کوفی عنان، فلسطینی رہنما یاسر عرفات (مرحوم) جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا، سابق روسی صدر میخائل گورباچوف، تبت کےدلائی لامہ، مصرکے سابق صدر انور سادات اورسابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر شامل ہیں۔
میڈیسن، فزکس، کیمسٹری، لٹریچر اور اکانومی کے شعبوں میں نوبل انعام دینے کے لیے افراد کا چناؤ سویڈن میں ایک کمیٹی کرتی ہے، جب کہ امن نوبل انعام دینے والی کمیٹی ناروے میں فیصلہ کرتی ہے۔ سویڈن اور ناروے دونوں ایسے یورپی ممالک ہیں جو صنفی مساوات کے حامی ہیں لیکن اس کے باوجود، دونوں نوبل کمیٹیوں میں مرد اراکین کے مقابلے میں خواتین کا تناسب ایک چوتھائی ہے، جب کہ امن نوبل کمیٹیوں کے علاوہ دیگر کمیٹیوں کی سربراہی بھی مرد کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق رجسٹر کرائی جانے والی ایجادات کی عالمی فہرست میں خواتین کا مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ان کی تعداد کل تعداد کے ایک تہائی تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن آج بھی ان کی ایجادات کا علم شاذو نادر ہی کسی کو ہوگا۔
کیا کسی کو معلوم ہے کہ ’’ونڈ شیلڈ وائپر‘‘ کی ایجاد کا سہرا ایک خاتون ’’میری اینڈرسن‘‘ کے سر ہے، جو اس نے1903ء میں اپنے نام کیا۔ اسی طرح مریض کے علاج کے لیے ’’سرنج‘‘ ایجاد کرنے والی بھی خاتون ’’لے ٹیٹا گیر‘‘ ہیں۔ اس زمانے میں جب عورتیں مٹی کے چولہوں پر لکڑی سے کھانا پکاکر بے حال ہوجاتی تھیں۔
دھواں، راکھ، گرمی، گھٹن اور ان کے نتیجے میں مختلف بیماریاں لوگوں پر حملہ آور ہوتیں، ایسے میں ایک عورت، ایلزبتھ باک نے کھانا پکانے کے لیے ’’اسٹوو‘‘ ایجاد کیا، غرض ان خواتین کی طویل فہرست ہے جنہوں نے قدیم سے جدید دور تک مختلف ایجادات کیں اور اب تک کررہی ہیں۔
آج کے جدید دور میں انٹر نیٹ اور وائرلیس ٹیکنالوجی نے دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے لیکن شاید کسی کو علم نہیں کہ، اس میدان میں آسٹریا کی خاتون ’’ہیڈی لینگر‘‘ کا نام بھی نمایاں ہے، انہوں نے ’’اسپریڈ اسپکٹرم ٹیکنالوجی‘‘ دریافت کی تھی۔
ایک اور خاص بات یہ کہ، دنیا کی سب سے پہلی موجد خاتون ’’سبلا ماٹرس‘‘ کو شاید ہی کوئی جانتا ہو گا۔ 1775ء میں انہوں نے اناج کو ’’فوڈ اور فائبر‘‘ میں تبدیل کرنے کا طریقہ ایجاد کیا لیکن برطانیہ کی عدالت نے اس کا پٹینٹ سبلا کے نام کے بجائے ان کے شوہر کے نام جاری کیا، کیوں کہ انیسویں صدی کی آخری دہائی تک وہاں خواتین کو ملکیت اور پٹینٹ کا حق حاصل نہیں تھا۔ نوبل انعام کے اجراء کے بعد کچھ موجد خواتین کے نام تو منظر عام پر آئے لیکن اب بھی بہت سی خواتین صنفی امتیازکے باعث پس پردہ رہ کر کام کررہی ہیں۔
اس ہفتے ان چند خواتین کے بارے میں مختصراً ملاحظہ کریں، جنہوں نے نوبل امن انعام کے ساتھ مختلف شعبوں میں نوبل انعام حاصل کیے۔
’’مادام کیوری ‘‘دو نوبل انعام حاصل کرنے والی واحد خاتون
جن ’’67‘‘ خواتین نے نوبل انعام حاصل کیا، ان میں ’’مادام کیوری‘‘ واحد خاتون ہیں جنہیں دو مختلف شعبوں میں انعام ملا۔ ان کی دریافتوں نے جدید دور کی طبعیات اور کیمیائی ایجادات میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے خاندان کو ’’نوبل گھرانا‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ1903ء میں مادام کیوری اور ان کے شوہر، پیری کیوری کو فزکس کا نوبل انعام مشترکہ ملا، جب کہ 1935ء میں ان کی بیٹی ’’آئرین جولیٹ کیوری‘‘ بھی اپنے شوہر فریڈرک جولیٹ کے ساتھ نوبل انعام برائے کیمیائی کی حق دار قرار دی گئیں۔ 1911ء میں میری کیوری کو دوسرا نوبل انعام کیمسٹری میں ملا، یوں اس خاندان نے پانچ انعام اپنے نام کیے، یہ اعزازتاحال کسی کے حصے میں نہیں آیا۔
مادام کیوری، کو پہلا امن انعام، ریڈیو ایکٹیویٹی پر تحقیق کرنے پر ملا، یہ وہ وقت تھا جب لیبارٹریز میں صرف مرد کام کرتے تھے۔ کیوری، واحد خاتون تھیں، جو مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی تھیں، جب کہ دوسرا انعام ، کیمیا کے شعبے میں پولونیم اور ریڈیم کی ریافت پر ملا۔ ساری زندگی تابکاری شعاعوں کی زد میں رہنے والی ’’میری‘‘ انہی شعاعوں کا شکار ہوکر4جولائی 1934ء کو دنیا سے رخصت ہوئیں۔
شدید صنفی امتیاز کے دور میں لوگ یقین نہیں کرسکتے کہ کوئی عورت سائنس پر بھی کام کرسکتی ہے۔ میری کے علاوہ جن خواتین کو فزکس کے شعبے میں نوبل انعام ملا، اُن میں، ماریا جیوپرٹ مائرنے 1963 میں ایٹمی نیوکلیئس کے ڈھانچے پر کام کرنے پر نوبل انعام جیتا،جب کہ، اینی للیئر اورڈونا سٹرک لینڈ کولیزر فزکس میں نوبل انعام کی حقدار ٹھریں۔
دو خواتین سائنس دانوں نے دنیا کو حیران کردیا
2020ء میں سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں نوبل انعام برائے کیمیا حاصل کرنے والی جن دو سائنس دان خواتین کو مشترکہ طور پر دیا گیا، ان میں فرانس کی ایمانوئل شار پنیٹیئر اور امریکا کی جنیفیر ڈوڈنا شامل ہیں۔ ان سے قبل صرف پانچ خواتین کو کیمسٹری کا نوبل انعام دیا گیا تھا، مگر دو خواتین کو ایک ساتھ پہلی مرتبہ دیا گیا تھا۔
ان کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے جینز کی تبدیلی سے متعلق طریقہ کار دریافت کیا تھا۔ اس تکنیک کے ذریعے جانوروں، درختوں اور مائیکرو آرگینزم کے ڈی این اے مکمل درستگی کے ساتھ تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ تکنیک کینسر کے علاج کی نئی تھراپیز میں بھی استعمال کی جارہی ہے، اس سے موروثی بیماریوں کے علاج میں بھی مدد ملنے کے امکانات ہیں۔
2011 میں تین خواتین کو مشترکہ امن کا نوبل انعام ملا
نوبل کمیٹی کے چیرمین، تربجارن جانگلینڈ نے اس اعزاز کا اعلان کرتے ہوئےکہا ’ ہم دنیا میں امن اور جمہوریت تب تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک خواتین کو بھی اتنے ہی مواقع حاصل نہ ہوں جتنے معاشرے میں مردوں کو آگے بڑھنے کے لیے ملتے ہیں، ہمیں امید ہے کہ یہ اعزاز عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کا باعث بنے گا جو اب بھی دنیا کے کئی ملکوں میں ہے اور اس سے جمہوریت اور قیامِ امن کے لیے خواتین کے کردار کی اہمیت سمجھنے میں مدد ملے گی۔ـ
جن تین خواتین کوامن کا نوبل انعام مشترکہ طور پر دیا گیا ہے، ان میں لائبیریا کی صدر، ایلن جانسن سِرلیف، لائبیریا کی ہی لیما غبووِی اور یمن کی توکل کرمان شامل ہیں۔ انہیں یہ اعزاز حقوقِ نسواں اور خواتین کے تحفظ کے لیے پرامن جدوجہد اور قیامِ امن کے لیے بھرپور کوششیں کرنے پر دیا گیا ہے۔
جانسن سِرلیف افریقہ کی پہلی منتخب خاتون سربراہِ مملکت ہیں جبکہ لیما غبووی امن تحریک کی کارکن اور توکل کرمان یمن میں جمہوریت کی حامی تحریک میں شامل ایک اہم شخصیت ہیں، وہ ایک تنظیم ’وومن جرنلسٹ وِد آؤٹ چینز‘ کی سربراہ بھی ہیں۔
انہیں یمن میں آزادی صحافت اور صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف مہمات میں حصہ لینے کے باعث کئی مرتبہ جیل جانا پڑا۔ وہ حکومت کے خلاف بغاوت کے دوران اور حقوقِ نسواں کے لیے کلیدی کردار ادا کرنے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔ یہ پہلی عرب خاتون ہیں جنہیں امن کا نوبل انعام ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یہ اعزاز دیا جانا اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر عرب دنیا میں انقلاب کو کامیاب ہونا ہے تو اس میں خواتین کا شامل کیا جانا کتنا ضروری ہے۔
ایلن جانسن سِرلیف لائبیریا میں جاری چودہ سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد دو ہزار پانچ میں ملک کی صدر منتخب ہوئیں۔ لائبیریا سے ہی تعلق رکھنے والی لیما غبووِی خانہ جنگی کے دوران تشدد کے خلاف تنقید کرنے والوں میں اہم شخصیت تھیں۔ انہوں نے خواتین کو لسانی اور مذہبی بنیادوں پر قیامِ امن کے لیے محترک کیا اور انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
ایران کی ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ قیدی نرگس محمدی کے لیے امن کا نوبل انعام
نرگس محمدی امن کا نوبل انعام جیتنے والی 19 ویں خاتون ہیں ان کا شمار سخت گیر اور بنیاد پرست ملک ایران میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرکردہ کارکنوں میں ہوتا ہے۔ نرگس محمدی نے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
انہیں 13 بار گرفتار کیا گیا ، 5 مقدمات میں مجموعی طور پر 31 سال قید اور 154 کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ علاوہ ازیں نرگس محمدی، انسانی حقوق کی کارکن شیریں عبادی کی زیرقیادت ایک غیر سرکاری تنظیم ڈیفنڈرز آف ہیومن رائٹس سینٹر کی نائب سربراہ بھی ہیں۔ 2003میں شیریں عبادی کے بعد دوسری ایرانی خاتون ہیں جنہیں نوبل امن انعام دیا گیا۔
نرگس نے ایرانی حکام کی جانب سے متعدد گرفتاریوں اور برسوں سلاخوں کے پیچھے رہنے کے باوجود اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ انہیں ایران کی بدنام زمانہ ایون جیل میں رکھا گیا ۔وہ ملک بھر میں خواتین کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے لیے ایک سرکردہ شخصیت ہیں جو گذشتہ سال ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد شروع ہوئے۔ مہسا امینی کو اسکارف نہ پہننے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
ادب کے شعبے میں نوبل انعام جیتنے والی چند خواتین
ادب کی دنیا میں بے مثال خدمات انجام دینے والی خواتین کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں اپنی متاثر کن تحریروں اور ادبی کاموں کے ذریعے پہچانی جاتی ہیں۔ ان کے کام نے انہیں نوبل انعام سے نوازا۔ ذیل میں چند خواتین کے نام ملاحظہ کریں۔
2013 میں، ادب کے نوبل انعام کے لیئے دو خواتین امیدوار تھیں جن میں کینیڈا کی ایلس منرو اور بیلاروس کی لیکس وائخ شامل کے علاوہ جاپان کے ناول نگار ہاروکی مورا کامی بھی اہم امیداوار تھے۔ لیکن ایلس منرو اس انعام کی حقدار ٹھہریں۔
ایلس منرو کی کئی کہانیوں پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ 2018ء میں نادیہ مراد،جنگ اور مسلح جھڑپوں کے ہتھیار کے طور پر جنسی تشدد کے استعمال کو ختم کرنے کی کوششوں پر ادب کے شعبے میں نوبل انعام برائے امن کا اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں، جب کہ 1993 میں پہلی سیاہ فام خاتون ٹونی موریسن (Toni Morrison) نے ادب کا نوبل انعام حاصل کیا۔ 2024 میں جنوبی کوریا کی ناول نگار ہن کانگ، نوبل انعام جیتنے والی پہلی جنوبی کوریائی خاتون ہیں۔
شیریں عبادی، نوبل انعام حاصل کرنے والی مسلم دنیا کی پہلی خاتون
شیریں عبادی نوبل انعام حاصل کرنے والی مسلم دنیا کی پہلی خاتون، یران کی معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی ترجمان ہیں۔ شیریں عبادی یونیورسٹی آف تہران میں بچوں اور خواتین کے قانونی حقوق پرلیکچرز دیتی تھیں۔
یاد رہے کہ 1997ء کے صدارتی انتخابات میں اصلاح پسند محمد خاتمی کی شاندار کامیابی میں خواتین کا کردار کلیدی، جب کہ بطور وکیل شیریں عبادی کا کردار اہم رہا ہے۔ وہ ان خاندانوں اور افراد کا مقدمہ لڑتی رہیں جو سخت گیر لوگوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔
ان کے اس کردار پر سخت گیر طبقہ بہت زیادہ بے چینی محسوس کرتا ، چنانچہ شیریں عبادی کو آزمائشوں سے گزارا گیا۔ ان پر مختلف مقدمات قائم کیے گئے۔ پانچ برس تک قید و بند کی سزا سنائی گئی جو بعد ازاں منسوخ کر دی گئی۔
انھوں نے دو این جی اوز بھی قائم کیں جن کا مقصد بنیادی طور پر انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ انھوں نے بچوں پر زیادتی کے خلاف ایک ڈرافٹ تیار کیا جو 2002ء میں ایرانی پارلیمنٹ نے منظورکر لیا۔
سال رواں کا ’’نوبل امن‘‘ انعام لاطینی امریکا کے ملک ونیز ویلا کی سرکردہ اپوزیشن رہنما، ماریا کورینا ماچاڈو (Maria Corina Machado) کو دیا گیا جو انہیں وینز ویلا میں جمہوریت کے فروغ اور آمریت کے خلاف پرامن مزاحمت پر دیا گیا۔ نوبل انعام کمیٹی نے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ماچاڈو نے اس سیاسی پوزیشن کو متحد کیا جو کبھی بری طرح تقسیم کا شکار تھی۔
ان کی کوششوں کے نتیجے میں ونیز ویلا کی اپوزیشن نے اپنی اس بلند آواز کو تلاش کرلیا، جس کے ساتھ ملک میں اب آزادانہ انتخابات اور نمائندہ حکومت کے مطالبات کا سفر شروع ہوگیا ہے۔ ماریا چاڈو کی جمہوریت کے لیے انتھک جدوجہد اور آمریت سے جمہوریت کی طرف منصفانہ اور پرامن منتقلی کی کوششوں کو سراہا گیا ہے۔
یہ انعام ونیز ویلا میں جمہوریت کے لیے جاری جدوجہد کی عالمی سطح پر پزیرائی ہے۔ ماریا اس وقت ونیز ویلا میں روپوش ہیں، جہاں انہیں حکومت کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یاد رہے کہ ماریا کورینا کو ’’2024ء میں نکولاس مادورو کے خلاف صدارتی امیدوار بننا تھالیکن انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔
یہ صدارتی انتخابات وسیع تر حکومتی جبر، انتخابی نااہلی کے سیاسی فیصلوں، گرفتاریوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے واقعات سے عبارت تھے۔ ریاستی اور حکومتی جبر کی وجہ سے ماچاڈو کو مجبوراً روپوشی کی زندگی اختیار کرنا پڑی لیکن اس بہادر خاتون نے خطرات کے باوجود ملک چھوڑنا گوارا نہ کیا اور حالات کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کیا۔
امن نوبل انعام کے فیصلے کی اہم بات یہ ہے کہ ماچاڈو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرا دیا، جب کہ ٹرمپ خود کو اس انعام کا سب سے زیادہ حق دار سمجھتے تھے۔ بقول ٹرمپ، کے انہوں نے امن کے قیام کے لیے سات، آٹھ جنگیں بند کراکے دنیا کو، انسانیت کو بڑی تباہی سے بچایا ہے لیکن ان کے بہت سے فیصلوں نے دنیا میں مسائل بھی پیدا کیے ہیں، بہرحال خاتون کے نام نوبل امن انعام ہوگیا۔
مدر ٹریسا: 1979 دہائیوں پر محیط سماجی خدمات کے صلے میں
مدر ٹریسا، ایک ایسا نام جس میں دنیا بھر کے انسانوں کے دلوں میں گھر کیا، ایک عورت نے وہ کام کردکھائے جسے کرنے کے لیے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اپنی زندگی خدمت خلق کے لیے وقف کر دینے والی مسیحی راہبہ، مدر ٹریسا نے اپنی زندگی غریبوں اور بے کسوں کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔
وہ کلکتہ میں ساٹھ برس تک غریبوں و نادار بیماروں کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔ انھوں نے اپنے ادارے کی بنیاد انیس سو پچاس میں محض بارہ راہباؤں کے ہمراہ رکھی تھی جن کی تعداد بعد میں بڑھ کر ساڑھے چار سو تک اور دائرہ کار ایک سو تینتیس ممالک تک جاپہنچا۔ مدر ٹریسا کو غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنے اور غربت کے خاتمے کی جدوجہد کے لیے 1979 میں امن کا نوبل انعام ملا۔
آنگ سان سوچی 1991: جمہوریت کی جدوجہد کے اعتراف میں
وجی آمریت کے خلاف آنگ سان سوچی نے اپنی زندگی کا کافی حصہ نظر بندی میں گزارا۔ انہیں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر خاموشی اختیار کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر بعض حلقوں کی جانب سے ان سے ایوارڈ واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا، لیکن نوبل انعام کے قوانین کے مطابق ایوارڈ واپس لینا ممکن نہیں ہے۔
ماضی میں خود ظلم کا شکار ہونے والی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سو چی پر اب میانمار کی اقلیت روہنگیا کے قتلِ عام کے الزامات ہیں۔ سوچی کوالزامات کا دفاع کرتے دیکھنا کسی حیران کُن ستم ظریفی سے کم نہیں ہے۔
ملالہ یوسف زئی 2014:ء بچوں کے حقوق پر
17 سالہ ملالہ یوسف زئی پہلی پاکستانی خاتون ہیں جن کو نوبل انعام دیا گیا۔ اس سے قبل پاکستانی نژاد امریکی سائنسدان عبدالسلام کو فزکس میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔ ملالہ کو سوات میں خواتین کے حقوق اور بچیوں کی تعلیم کیلئے جدوجہد کرنے پراس انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔
ملالہ کو طالبان نے9 اکتوبر 2012 میں حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا، برطانیہ علاج کیلئے بھیجا گیا۔ نوبل کمیٹی کے مطابق، ملالہ کو بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے پر نوبل انعام دیا گیا۔ ملالہ کے حوصلے اور جرات نے قبائلی علاقوں سمیت دور افتادہ دیہات میں رہنے والی بچیوں کو بھی تعلیم اور حق مانگنے کا حوصلہ دیا ہے۔