• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب لارڈ مینڈلسن کو ڈیںورہ پرنٹِس سے ہاتھ ملاتے دیکھا کہ دونوں مَن میں یو کے،یو ایس کے مابین معیشت بڑھوتری اور اِختِراع کے نئے دریچے کھولنے کے ارمان جگائے ہوئے تھے، تو میں حیران ہوا۔ اختراع ایجادات اور دریافتوں کی نئی سوچ کا حُسن ہے۔ اختراعات کے گلستان کی ضرورتیں کیوں؟ اور یہ ڈیںورہ پرنٹِس و لارڈ مینڈلسن کون ہیں... اس طرف جانے سے قبل ایک اور خیال کی دستک کہ وہ زمانہ اور تھا جس میں خوش خطی کے نمبر بھی مل جاتے لیکن خوش فہمی یا غلط فہمی پر نمبر اُس وقت بھی نہیں ملتے تھے ، اب تو خیر خط ہی نہیں ملتا خوش خطی کیا۔ اس بین الاقوامیت کےدور میں کسی کو نمبر ملتے ہیں تو عملی لوہا منوانے کے یا کامیابی کا عَلم سائنس و ٹیکنالوجی و انجینئرنگ میں بلند کیا ہو، لٹریچر یا انٹرنیشنل ریلیشننگ کی محنتیں بھی ضائع نہیں جاتیں، کراماً کاتبین اور منکر نکیر ابتدا سے انتہا تک کا حساب کتاب اٹھائے پھر رہے ہیں اور سارا ڈیٹا خلاؤں میں ہے جو جسکی بھی اوقات دیکھنا چاہتا ہے، بقول شاد عظیم آبادی حالیہ فضا کہتی ہے ’’یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی/ جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے‘‘اجی، اسلام آباد کے کچھ سرکاری و غیر سرکاری، خود مختار اور’’ ہائپر مختار‘‘ اداروں نے کبھی ڈیںورہ پرنٹِس/لارڈ مینڈلسن کی طرح آگے بڑھ کے سوچا ہے؟  معلوم ہے پارلیمنٹیرینز کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز( PIPS) کیلئے وقت نکالیں ، یہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ( پیپلزپارٹی 2008 تا 2013) کے دور میں تکمیل اور فعلیات کے مراحل تک پہنچا تھا۔ اسپیکر اس کا کرتا دھرتا ہے اگر اس سے پارلیمانی احساس اور دیگر قومی ادارے استفادہ کریں ، اسپیکر اس کےانصرام کو کار آمد بنادیں تو تنخواہ مزید بھی بڑھا لیں تو فکر نہیں بصورتِ دیگر سب چُبھتا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک ا سٹڈیز اسلام آباد (ISSI) اور انسٹیٹیوٹ آف ریجنل ا سٹڈیز اسلام آباد (IRS) وہ جاندار اور شاندار ادارے ہیں جو پالیسی سازی میں نہ صرف پاکستان کی قسمت بدل سکتے ہیں بلکہ اپنی رہنمائی سے ملک بھر کے نامور اداروں میں خارجی فہم،انٹرنیشنل ریلیشننگ اور معاشی تعلقات میں روح پھونک سکتے ہیں۔ اس تناظر میں بلیو اکانومی پر کچھ عرصہ قبل سابق سیکرٹری خارجہ اور موجودہ سربراہ انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز سہیل محمود سے بات بھی ہوئی ، اور سابق سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی تک بھی بات پہنچائی گئی،یہی التجا محترمہ آمنہ بلوچ ( سیکرٹری خارجہ) سے بھی ہے کہ خارجہ امور کے ماہرین اور خارجہ امور کے ادارے ڈیںورہ پرنٹِس/لارڈ مینڈلسن سے طرزِ عمل کی رہنمائی و آبیاری کریں کہ گلشن کا کاروبار چلے، اور اختراعات کو قدم جمانے کا موقع ملے۔ یہ نہیں کہ کوئی ترکی میں بیٹھا کامرس کا سابق آفیسر سفیر بن کر سفارت کاری اور کامرس کو پس پشت ڈال کر اپنے وزیر اعظم ہاؤس کی پہنچ کے گن گاتا رہے ، اپنے ڈپلومیٹس کو استعمال کرنے کے بجائے انڈرپریشر کرتا رہے، تو فائدہ؟ضروری ہے کہ سفارت خانہ کینیڈا کا ہو یا ایتھوپیا کا، امریکہ کا ہو یا بنگلادیش کا ہر صورت میں باہمی تعلقات ، معاشی شراکت داری، تعلیمی و تحقیقی استطاعات کی شیئرنگ کو بروئے کار لانے کا سوچنا چاہئے۔ یہ معاملہ کوویلنٹ بانڈنگ سا ہوتا ہے۔ پرنٹِس اور مینڈلسن کیوں یاد آئے؟ لارڈ مینڈلسن برطانیہ کا وہ سفیر ہے جو امریکہ میں خدمات سر انجام دے رہا ، اور ڈیپورہ پرنٹس یونیورسٹی آف کیمبرج کی وائس چانسلر ہیں۔ کیمبرج کا ٹیکنالوجیکل ایکوسسٹم 222 ارب ڈالر کا ہے جو برطانیہ کی ٹیکنالوجیکل ویلیو کا 18 فیصد بنتا ہے۔ ایک سفارتکار اپنے برطانیہ کا سوچتا ہے، اپنے ملک کو اپنے دفتری ملک سے فائدہ دلوانا چاہتا ہے، اور روٹ لیتا ہے وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا جبکہ کنکشن چاہ رہا ہے یونیورسٹی سے، یونیورسٹی سوچتا ہے، یونیورسٹی چُنتا ہے، جا کر 27 جون 2025 کو ڈیپورہ پرنٹس کی لیڈرشپ اور محققین کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ یہ ہے عمل پر چلنے والے ممالک کی ترقی کا راز اور داخلہ و خارجہ و تعلیمات کی عمل انگیزیاں! سن 2012/13 میں ہم نے یہاں ایک سعودی سفیر ڈاکٹر کو ایک یونیورسٹی سربراہ کے قریب کرنا چاہا کہ یہ سربراہ عربی پر عبور رکھتے تھے، مگر ہمارے سربراہ کی ٹیم اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ سکی، اور راقم کی کامیابی بھی محض ایک حج کر لینے تک کامران رہی ، آہ!سنا ہے ہماری وزارت خارجہ کی جانب سے ہفتہ وار پریس بریفنگ ہوتی ہے، یہ قابلِ تحسین اقدام ہے، اور اسکی سمری ویب سائٹ پر بھی آتی ہے، ہم چاہتے ہیں ایک مؤثر سوال اور اس کا دل موہ لینے والا قابلِ عمل جواب اور نیت ہم بھی سمری میں پڑھیں، اور اس کا جواب بھی ہمیں ملے کہ پچھلے دنوں منسٹری نے اپنے ہی بنائے ہوئے میرٹ اور اصولی پالیسی کو سبوتاژ تو نہیں کیا؟ لیول سی کرنے والوں کی لیول بی میں اور لیول بی والوں کو لیول اے کی ترقی و تعیناتی میں پذیرائی بخشی گئی؟ دل چاہتا ہے یہ بھی خبر آنکھوں کی ٹھنڈک بنے کہ وزیراعظم ہاؤس و ایوانِ صدر اور ہیڈ آفس اسلام آباد میں آکر اصولی دورانیہ پورا کرنے کے بعد ہی اگلی تقرری و ترقی ملی ہو ہیرا پھیری یا سفارش سے نہیں! اکا دکا واقعہ اگر لیڈرشپ ادارہ جاتی بہتری کیلئے کرتی ہے تو کوئی حرج نہیں یہ بناؤ ہے، اگر حق تلفی کا بازار کھل جائے تو یہ بگاڑ ہے!سائنس و ٹیکنالوجی کی ہماری چینی و ترکی کی دوستی نے ہمیں جنگ و جدل اور ڈپلومیسی میں سرخرو کیا مجموعی سفارت کاری نے نہیں۔ ہماری سرحدی و جغرافیائی اہمیت ہمیں گلوبلائزیشن میں اہم بناتی ہے ہماری سفارتی و سائنسی و تحقیقی اور تعلیمی استطاعت نہیں۔ ہماری فوجی اور جمہوری سائنس ہمیں عالمی پذیرائی لے کر دیتی ،کوئی غلط فہمی و خوش فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ سفارتی معرکہ نہ تھا۔ جب پاک بھارت جنگ نے پرانے دھونے دھو ہی دئیے ہیں تو اب ہمارے خارجہ امور کے ماہرین اور خارجہ پالیسی کو استفادہ کرنا ہوگا کہ سمجھئے.... خالی’’خوش خطی‘‘ کا زمانہ نہیں!

تازہ ترین