میر ے شہر سیالکوٹ کی فضا سانحہ سوات میں وفات پانے والے افراد کی وجہ سے سو گوار ہے۔ ہر شہری غمزدہ اور ہرچہرہ پژمردہ نظر آرہا ہے ۔ ڈسکہ سے ہنسی خوشی سیر و سیاحت کے لئے جانے والے افراد کو کیا معلوم تھا کہ دریائے سوات کے پانی کی لہروں میں موت کے پنجے انہیں دبوچنے کے لئے انتظار میں ہیں ۔دریا کنارے ناشتہ کرنے کے بعد پانی میں تصویریں بنانے کے شوق نے انہیں پا نی کے آنیوالے بڑے ریلے سے بے خبر رکھا اور وہ جان بچانے کی جدو جہد میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ کنارے پر کھڑے متعدد افرادبے بسی کی حالت میں منہ میں انگلیاں دبائے انکی کوئی مدد نہ کرسکے۔ ریسکیوکے افراد نے تندو تیزلہروں کے درمیان پرانی سی کشتی کی مدد سے چار افراد کی جان بچائی مگر تیرہ افراد موت کی وادی میں اتر گئے۔نئی ٹیکنالوجی اور نئی ایجادات کی جہاں افادیت ہے وہیں پر بے جا استعمال سے بہت سی خرابیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ موبائل فون میں کیمرے نے ہر انسان کو اتنا خود پسند بنا دیا ہے کہ ہر شخص اسکا اسیر ہوکر رہ گیا ہے۔ انوکھی جگہوں پر منفرد نظر آنے کیلئے فوٹیج اور تصویربنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کا جنون بعض دفعہ جان لیوا ثابت ہو تاہے۔ آئے دن سیلفی بنانے والوں کی اموات کی خبریں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ حفاظتی اقدامات کے بغیر پر خطر جگہوں پر ایکشن کرکے فلم بندی کرنا حماقت کے علاوہ کچھ نہ ہے۔جب حفاظتی اقدامات کی بات ہوتی ہے تو سار ا ملبہ خکومت پر ڈال دیا جاتاہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پبلک مقامات پر حفاظتی اقدامات کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مگر ان حفاظتی اقدامات پر عمل کرناعوام کی ذمہ داری ہے۔ حکومتی اداروں میں کرپشن مافیا اپنی ذاتی لالچ اور طمع کی وجہ سے عوامی حفاظت اور فلاح و بہبود کے کاموں سے روگردانی کر جاتا ہے۔ جس سے سانحہ سوات جیسے حادثات جنم لیتے ہیں۔عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ کسی بھی مقام پر حادثہ کے وقت حکومتی ادارے وقوعہ گزر جانے کے بعد پہنچتے ہیں وقت پر انہیں پہنچنے کی انہیں تربیت ہی نہیں ہے اور نہ انکی کو شش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں کبھی سانحہ مری ہوتا ہے اور کبھی سانحہ سوات وقوع پذیر ہوتا ہے۔لوگوں کو آفات میں پھنسے ہوئے گھنٹوں گزر جاتے ہیں مگر انکا نہ کوئی پرسان حال ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی بروقت پہنچ کر انکی مدد کرتاہے۔2004-05ء کے زلزلے کے بعد وفاقی سطح پر آفات نا گہانی سے نمٹنے کیلئے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ایک ادارہ تشکیل دیا گیا تھا جسکے بعد صوبائی سطح پر بھی اس طرح کے ادارے بنائے گئے اور انکو فنڈز بھی مہیا کئے گئے مگر ان اداروں کی کارکردگی تاحال عوام کے سامنے نہ آسکی۔ سانحات اسی طرح وقوع پذیر ہو رہے ہیںاور عوام کے دکھ میں کمی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ وقتی طور پر حکمرانوں کے گھسے پٹے بیانات اور دوچار ملازمین کی معطلی کی خبر سے حکمران اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو جاتے ہیں مگر جن کے عزیز موت کے منہ میں جاتے ہیں انکے دکھ کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔سانحہ سو ات پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا بھی قابل افسوس ناک عمل ہے ہم کب تک ایک دوسرے پر الزام تراشی کا وطیرہ اپنائے رکھیں گے اور ترقی کی منازل کو کھوتے رہیں گے۔ اقوام عالم اس طرح کے سانحات سے سبق حاصل کرکے مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مربوط منصوبہ بندی کے تحت نظام وضع کرتی ہیں۔ایک مسلمان کے طور پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں کہ حج کے موقع پر جب کوئی سانحہ پیش آیا۔ سعودی حکومت نے اس کا فوراً مداوا کیااور روک تھام کا بندوبست کیا تاکہ آئندہ سال وہ واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے۔ اس سلسلے میں انہیں بعض مقامات پر بڑی بڑی تعمیرات بھی بنانی پڑیںمگر سعودی حکومت نے فوری طور پر اقدامات کئے۔
سانحہ سو ات کے پس منظر میں اب فوری اقدامات کرتے ہوئے دریا کے کنارے بنائے گئے ہوٹلز و ریسٹورینٹس کی عمارات کو گرا یا جا رہا ہے اور لوگوں کو بے روزگار کرنے کے علاوہ آنے والے سیاحوں کے لئےسہولیات کو کسی منصوبہ بندی کے بغیرختم کیا جارہا ہے، جب یہ ہوٹلز اور ریسٹورینٹس تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی تھی اس وقت ان کے لئے حفاظتی اقدامات جنگلہ جات وغیرہ کی تعمیرات کو یقینی بنایا جاتا۔ خکومت کا کام مانیٹرنگ ہوتا ہے۔ ان عمارات کو اس طرح تعمیر کر نے کی اجازت دی جاتی کہ کسی سیاح کا دریا میں داخلہ ممکن نہ ہوتا۔ اور دریاکے پانی سے عمارت محفوظ رکھنے کا بھی بندوبست ہوتا۔ جس سے اس طرح کے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔اب ہم اگر اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کیلئے سول اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیںتو یہ ادارے انگریز کے زمانے کے سول بیوروکریسی نظام کے تحت چل رہے ہیںاور ان میں ناگہانی آفات سے نمٹنے کیلئے درکار چابکدستی عنقاہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور مناسب تربیت کا نہ ہونا دوسرے عناصر ہیں ۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ادار ہ الرٹ جاری کرنے کے علاوہ کوئی قابل ذکر خدمت اب تک انجام نہیں دے سکا ہے۔ سانحہ سوات کے متاثرین تقریباً دو گھنٹے تک پانی میں گھرے امداد کے منتظر رہے ۔ اس دوران ان کی مدد کے لئے اداروںکو بر وقت پہنچ جانا چا ہئے تھا۔ مگر یہ متاثرین کی بد قسمتی تھی کہ جو ریسکیوادارے کے ملازمین پہنچے ان کے پاس درکار وسائل نہ تھے۔