• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداکارہ حمیرا اصغر کی پراسرار حالات میں موت نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے تبصروں، تجزیوں اور چہ میگوئیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ بعض ناصح اس واقعہ کو عبرتناک قرار دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حقوق نسواں کے سرابوں کا تعاقب کرنیوالی خواتین کا یہی انجام ہوتا ہے۔ ایک مولانا نے سوشل میڈیا پر لکھا، شوہر کا کھانا پکانے اور جرابیں ڈھونڈنے والی کی لاش کبھی 6ماہ تک لاوارث نہیں رہے گی۔ یعنی اپنے حقوق کی جدوجہد کرنیوالی عورتوں کیلئے صلائے عام ہے، رجوع کرلیں، صراط مستقیم پر آجائیں ورنہ سرکشی اور بغاوت کا نتیجہ یہی ہوگا کہ تنہائی کے عالم میں تمہاری لاش کسی اپارٹمنٹ میں گل سڑ جائے گی۔ اپنے منہ پر قفل لگا لو، اطاعت و فرماں برداری کے کھونٹے سے بندھی رہو تاکہ نان نفقہ کے ساتھ کفن دفن اور اچھے چال چلن کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکو۔ تمہیں کم سنی میں بھیڑ بکری کی طرح کسی انجان شخص سے بیاہ دیا جائے، تعلیم حاصل کرنے سے روکا جائے، اپنی مرضی سے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہ ہو یا پھر غیرت کے نام پر قتل کر دیا جائے تو اُف تک نہ کرو۔ چپ چاپ ،سب ظلم و جبر سہتی رہو اور خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دو۔ خبردار ،لڑکوں کا چال چلن دیکھ کر گمراہ نہ ہو جانا، ان کا معاملہ مختلف ہے۔ بیٹا زانی ہو، شرابی ہو،چور ہو، ڈکیت ہو ، نشے کی لت میں خود کو تباہ کرلے، والدین کبھی اس کی لاش وصول کرنے سے انکار نہیں کریں گے، پوری تکریم اور شان و شوکت کے ساتھ اس کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی مگر جن کی گواہی آدھی ہے وہ پورے حقوق کا دعویٰ کیسے کرسکتی ہیں۔

مرد و زن کی بحث سے قطع نظر، اگر آپ خوابوں کے متلاشی ہیں، اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیں،کولہو کے بیل کی طرح آنکھیں بند کرکے گول دائرے میں گھومتے رہنے پر اکتفا نہیں کرتے تو پھر اپنی راہ خود متعین کرنے کے فیصلوں کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ شعور وآگہی بذات خود کسی عذاب سے کم نہیں۔ آپ انسانوں کی بھیڑ میں بھی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ حلقہ یاراں سمٹ کر رہ جاتا ہے۔ کسی سے حالات و واقعات بیان کرکے دل کا غبار ہلکا نہیں کیا جاسکتا۔ چپ رہیں تو دم گھٹتا ہے، لب کشائی کی صورت میں وہ بونے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں جن کا عقل و شعور سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں شاعروں نے اکیلے پن کو عذاب سے تشبیہ دی ہے، ماہرین نفسیات کے نزدیک تنہائی زہر قاتل ہے، مفکرین کا خیال ہے کہ انسان سماجی جانور ہے جسے زندگی بسر کرنے کیلئے ہم جولی درکار ہوتے ہیں۔ مگر اس حوالے سے میری رائے مختلف ہے۔ جب زندگی کی آپا دھاپی سے دور آپ گوشہ نشینی اختیار کرتے ہیں، خلوت میسر آتی ہے، تو تخیل کی تلاطم خیز موجیں بھنور سے نکل کر کنارے کی طرف آتی ہیں، تہہ در تہہ لپٹی پہیلیوں کا معمہ حل ہوتا چلا جاتا ہے، اُلجھی ہوئی گتھیاںسلجھتی چلی جاتی ہیں۔ سوچ وفکر کو یکسوئی میسر آنے سے آپ کسی منطقی نتیجے تک پہنچ پاتے ہیں۔ لہٰذا میں ہنگامہ خیزی کے اس دور میں تنہائی کو زحمت نہیں رحمت خیال کرتا ہوں۔

تکلف برطرف، شوہر کیلئے کھانا گرم کرنا یا اس کے موزے تلاش کرکے دینا ہرگز معیوب نہیں مگر یہ جملے بطور استعارہ استعمال ہوتے ہیں جن کا مقصدیہ واضح کرنا ہے کہ بیوی سے لونڈیوں جیسا برتائو نہیں کیا جاسکتا ۔ شریک حیات کو پائوں کی جوتی سمجھنے والے بہت بڑے مغالطے کا شکار ہیں۔ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دینے والے غلطی پر ہیں۔ جس طرح بیٹے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے پروفیشن کا انتخاب کرے، اسی طرح بیٹی بھی اپنے طبعی میلان اور رجحان کے مطابق یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ اس نے کس شعبہ ہائے زندگی کی طرف جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ اسے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسے اپنے طرز زندگی اور رہن سہن کا انتخاب کرنے کی آزادی ہے۔ میری دانست میں اداکارہ حمیرااصغر کی موت سے حاصل ہونے والا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ آپ (بالخصوص خواتین) کے سامنے دو راستے ہیں۔ اپنی منشا و مرضی سے زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کریں ،اہلخانہ کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش ضرور کریں لیکن کسی کو اپنی رائے اور مرضی مسلط کرنے کا اختیار نہ دیں، شادی کے بعد اپنی عزت و وقار پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔

اگر کسی پل محسوس ہو کہ انسان نما جانور سے رشتہ ازدواج میں باندھ دیا گیا ہے توبلاتاخیر خلع کے ذریعے چھٹکارا حاصل کرلیں، گھٹ گھٹ کر جینے سے تنہائی کا زہر پینے کو ترجیح دیں، زندہ لاش بن کر رہنے سے بہتر ہے کسی اپارٹمنٹ سے میت برآمد ہو، بعد از مرگ کیا سلوک ہوتا ہے کیا نہیں ،اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ دوسرا راستہ یہ ہے کہ خواب دیکھنا اور ان کی تکمیل کی جدوجہد کرنا چھوڑ دیں۔ پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ’’اپنوں ‘‘کے اشارہ ابرو پر ناچتے رہیں کہ بقول حبیب جالب، ’’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘۔ اپنی حالت ِزار کو قسمت کا لکھا جان کر سمجھوتہ کرلیں ۔جب ،جہاں، جتنی آزادی میسر ہو ،اس پر اکتفا کریں اور مزید حقوق کا مطالبہ نہ کریں ۔ حمیرا اصغر کی میت برآمد ہوئی تو پولیس نے ابتدائی طور پر کہا ،لاش ایک ماہ پرانی ہے ۔بعدازاں معلوم ہوا کہ وہ تو 9یا10ماہ پہلے مرچکی تھی ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ مر تو وہ اسی دن گئی تھی جس روز اس کے اپنے گھروالوں نے فرسودہ خیالات کے زیر اثر معاشرتی رسوم و رواج کے خوف سے محض اس لیے لاتعلقی کا اظہارکردیا کہ اس نے اداکاری کے شعبہ میں کام کرنے کی ٹھان لی ۔وہ بد نصیب زندہ ہوتی تو یہ سن کر ایک بار پھر مرجاتی کہ اسے جنم دینے والے والدین نے لاش وصول کرنے سے انکار کردیا اورسوشل میڈیا پر غل مچ جانے کے بعد بادل نخواستہ میت وصول کرکے کفن دفن کا انتظام کیا گیا۔اس کا بھائی ڈاکٹر نوید اصغر لاش وصول کرنے پہنچا تو میڈیا پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’آپ لوگوں نے ڈھنڈورا پیٹا...‘‘ شاید اس کالم پر بھی ڈھنڈورا پیٹنے کا الزام عائد کیا جائے مگر کیا فرق پڑتا ہے ۔

تازہ ترین