آپ رشید بھاٹیہ صاحب کو جانتے ہیں؟ آج کے پاکستان میں موصوف کے روئے انور اور ان کے ژولیدہ تکلم سے کوئی آشنا نہ ہو، ایسا باور نہیں ہوتا۔ ہمارے ممدوح سیاست اور صحافت کے ایک قدیمی سلسلہ پاپوش بردار سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابھی انہیں دستار پوشی کی سعادت تو نصیب نہیں ہوئی کیونکہ تاحال اس سلسلہ انوار میں متقدمین کی ایک طویل فہرست حین حیات ہے۔ رشید بھاٹیہ تادم تحریر مرکز تجلیات کے ابتدائی زینوں پر ایستادہ ہیں تاہم چرخ نیلی فام کے رنگ نیارے ہیں۔ عجب نہیں کہ مطالعہ پاکستان کے آئندہ نصاب میں ان کا مقام ماہ و انجم سے بھی پرے قرار پائے۔ اگلے روز سوشل میڈیا پر حضرت کی ایک گفتگو بار سماعت ہوئی۔ قبلہ ہمارے برادر مکرم سہیل وڑائچ سے مکالمہ فرما رہے تھے۔ ایک جملہ دہن مبارک سے ایسا سرزد ہوا کہ بدنصیب سامع کے جگر میں تیر نیم کش کی مانند ترازو ہو گیا۔ فرمایا، ’’میں ’سیاست دان لٹیروں‘ پر سخت تنقید کرتا ہوں‘‘۔ تری آواز مکے اور مدینے! طے پا گیا کہ رشید بھاٹیہ کے تختہ فہم پر سیاست دان کا ’چور لٹیرا‘ ہونا نقش ہے۔ نوجوان شاید نہیں جانتا کہ 10 اکتوبر 1982 کو جب وہ پیدا ہوا ، اس روز پاکستان کے ایک نابغہ روز گار جمہوری سیاستدان ارباب عبدالغفور خان خلیل کا انتقال ہوا تھا۔ پختون خوا کے ارباب گھرانے میں ارباب عبدالغفور خان خلیل اور ارباب سکندر خان خلیل جیسے اسمائے صد احترام جگمگا رہے ہیں۔ جن کی سیاسی فراست، دیانت اور شفافیت کی شہادت دینا انکے مخالف بھی باعث اعزاز جانتے تھے۔ درویش از رہ ِدلیل یہ نشان دہی کرنا بھی سوئے ادب سمجھتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک سیاست دان تھے۔ آج آپ کا قائد اعظم کے ایک سیاسی کارکن ملک محمد جعفر سے تعارف کراتا ہوں جو 1941 میں ضلع کیمبل پور (اب ضلع اٹک) میں مسلم لیگ کے ضلعی سیکرٹری جنرل تھے۔
ملک محمد جعفر 14 جون 1914 کو کیمبل پور کے گائوں پنڈوڑی میں پیدا ہوئے۔ ان کا ابتدائی اعزاز یہ تھا کہ قادیان میں مقیم اپنے گھرانے کے بخشندہ عقائد سے انکار کیا۔ ہر کس کہ شد صاحب نظر، دین بزرگاں خوش نہ کرد۔ استاد گرامی آئی اے رحمان فرماتے تھے کہ ’’میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ ملک جعفر نے صحیح کیا یا غلط لیکن جس آدمی میں اتنی جرات ہو کہ آبائی مسلک سے علیحدگی اختیار کرے، میں اس کی بہت عزت کرتا ہوں۔‘‘ ملک محمد جعفر نے 1931 میں قادیان سے میٹرک کیا، 1935 میں گورڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کی سند لی۔ نہایت نامساعد حالات میں لا کالج، پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1940 میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ہاسٹل کے اخراجات کی استطاعت نہیں تھی۔ گڑھی شاہو میں کرائے کے مکان میں مقیم تھے اور پیدل لا کالج پہنچتے تھے۔ آبائی قصبے کیمبل پور میں وکالت شروع کی۔ 1941 میں مسلم لیگ کے ضلعی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد قبیلہ حرص و ہوس کے اطوار سے بدظن ہو کر سیاست سے لاتعلق ہو گئے۔ تقسیم ہند کے ہنگام ان کے آبائی علاقے میں غیر مسلم باشندوں سے جو سلوک ہوا، اس کا داغ زندگی بھر دل پر رہا۔ میاں افتخار الدین نے آزاد پاکستان پارٹی قائم کی تو ملک جعفر کی کچھ امید بندھی۔ بدقسمتی سے میاں افتخار الدین ایک سیاسی جماعت کی قیادت کے لئے درکار تحرک سے محروم تھے۔ ملک محمد جعفر کی سیاسی زندگی کا دوسرا دور 1969 میں شروع ہوا جب وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ 1970 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بھٹو صاحب ملک محمد جعفر کی اصول پسندی اور حق گوئی کے قدر دان تھے۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں قومی اسمبلی کے ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کا سوال زیر بحث تھا۔ ارکان مجلس بھٹو صاحب کی سیاسی حکمت عملی کا رخ سمجھتے تھے۔ ملک محمد جعفر نے دو ٹوک رائے دی۔ ’’ہمیں عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ مجیب الرحمن اکثریتی جماعت کے رہنما ہیں۔ ہمیں ڈھاکہ کے اسمبلی سیشن میں جانا چاہیے‘‘۔ اس پر اختلافی آوازیں اٹھیں مگر بھٹو صاحب نے سب کو روک کر کہا کہ ملک محمد جعفر صاحب کی بات سنی جائے۔ پاکستان کا دستور زیر تدوین تھا کہ بلوچستان اور سرحد اسمبلیوں کی تحلیل پر میاں محمود قصوری برافروختہ ہو کر پارٹی سے الگ ہو گئے۔ اس موقع پر تدوین دستور کی ذمہ داری ملک محمد جعفر اور کچھ دیگر ماہرین قانون کے سپرد ہوئی۔ دستور پاکستان مرتب کرنے میں ملک محمد جعفر کا کردار کبھی ریکارڈ پر نہیں آیا۔ سچے محب وطن ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ضیا الحق تشریف لائے تو آمرانہ روایت کے مطابق سیاست دانوں کے احتساب کا ناٹک شروع ہوا۔ تاہم ریڈیو پاکستان سے اعلان کیا گیا کہ ملک محمد جعفر کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں پایا گیا۔ 1981ءمیں زیڈ اے سلہری نے ضیا الحق کے ایما پر ملک جعفر کو مجلس شوریٰ میں شمولیت پر آمادہ کرنا چاہا تو ملک صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں آمریت کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
ملک محمد جعفر کی اصول پسندی ضرب المثل تھی۔ انہیں مالی تحریص یا جائیداد کے لالچ سے کوئی غرض نہیں تھی۔ ان کی غریب پروری کی کہانیاں اٹک کے بڑے بوڑھوں سے سنیے گا۔ ذاتی تعلقات سے فائدہ اٹھانا ان کی سرشت میں نہیں تھا۔ کسی منصب یا عہدے سے مرعوب ہونا ملک محمد جعفر نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ قریبی دوستی فیض احمد فیض اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق سے تھی۔ انہوں نے محترم آئی اے رحمن اور اپنے صاحبزادے غنی جعفر مرحوم کے اشتراک سے Jinnah as a parliamentarian کے عنوان سے جو کتاب لکھی، وہ بابائے قوم کی چالیس برس پر محیط پارلیمانی زندگی پر سند کا درجہ رکھتی ہے۔ تو بھائی رشید بھاٹیہ، ہم خوش نصیبوں نے ایسے سیاست دان دیکھ رکھے ہیں۔ کبھی مہلت ملی تو تمہیں قسور گردیزی، میاں محمود احمد، سوبھو گیان چندانی، افضل بنگش، چوہدری اصغر خادم اور بشیر دردی جیسے سیاسی کارکنوں کے قصے سنائیں گے۔ ہمارے مسلک میں سیاست دان کو ’لٹیرا‘ کہنا روا نہیں۔ لٹیروں کو ہم خوب پہچانتے ہیں۔
کہاں گئے وہ سخنور جو میرِ محفل تھے
ہمارا کیا ہے بھلا ہم کہاں کے کامل تھے