• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدتہذیبی اور گالم گلوچ کا قطعاً کوئی جواز نہیں مگر لاہور میں برسات کے دوران برسرعام حکمرانوں پر دشنام طرازی کرنیوالے’’چاچا‘‘کی کھڑکی توڑ مقبولیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی عوام دوست پالیسیوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ قتیل شفائی کے الفاظ مستعار لوں تو ہر شخص کی زبان پر یہ شعر مچل رہا ہے۔

’’دل میں طوفاں چھپائے بیٹھا ہوں ....یہ نہ سمجھو کہ مجھ کو پیار نہیں‘‘

سچ تو یہ ہے کہ روز بروز بلکہ لمحہ بہ لمحہ اس پیار کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور کیوں نہ ہو ۔ ارباب اقتدار انتھک محنت جو کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ بجٹ میں ’’طبقہ اُمرا‘‘ کے زیراستعمال 850سی سی کی چھوٹی گاڑیوں پر نہ صرف سیلز ٹیکس 12.5فیصد سے بڑھا کر 18فیصد کردیا گیا ہے بلکہ کلائمیٹ اسپورٹ لیوی عائد ہونے کے بعد یہ گاڑیاں مزید مہنگی ہو جائینگی اسکے برعکس بڑی اور پرتعیش گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی اورایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کم کردی گئی ہے جس سے ان گاڑیوں کی قیمتوں میں پونے پانچ کروڑ روپے تک کی کمی ہوگئی ہے۔ اس فراخدلانہ فیصلے کا مقصد یہ ہے کہ عام آدمی بھی بی ایم ڈبلیو جیسی گاڑیاں خرید سکے۔اس فیاضی کے باوجود آپ بجلی، گیس اور پیٹرول مہنگا ہونیکا شکوہ کرنے پر بضد ہیں تو یقینا ًآپ کا تعلق فتنہ اور انتشار پھیلانے والے گروہ سے ہوگا۔کیا آپ بھول گئے ،اس حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور کبھی احسان نہیں جتلایا۔جہاں تک ایک ماہ کے دوران مسلسل دوسری بار پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق ہے تو آپ کو یاد ہوگا جب عالمی منڈی میں تیل کے نرخ کم ہوئے تھے تو اس کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے کے بجائے پیٹرولیم لیوی بڑھا دی گئی تھی تاکہ ان پیسوں سے بلوچستان کی سڑکیں تعمیر کی جاسکیں ۔اب وہاں پنجابی مزدوروں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں قتل کیا جارہا ہے تو اس حوالے سے نہ صرف سکیورٹی اقدامات کو بہتر بنانا ہے بلکہ مرنے والوں کے کفن دفن اور مالی امداد کا بندوبست بھی کرنا ہے تو حکومت ان انتظامی و فلاحی نوعیت کے اقدامات کیلئے پیسے کہاں سے لائے ؟ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرکے محاصلات بڑھائے جاسکتے ہیں مگر اس کیلئے متعلقہ محکموں کو سخت محنت کرنا پڑئیگی اور حکومت انہیں کسی مشکل میںنہیں ڈالنا چاہتی ۔لہٰذاحکومتی آمدن بڑھانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بجلی ،گیس اور پیٹرول پرزیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کردیا جائے۔گزشتہ برس مجموعی طور پر ٹیکس وصولی کا نظر ثانی شدہ ہدف 11900ارب روپے تھا اور اس میں سے 1289ارب روپے پیٹرولیم لیوی کے ذریعے جمع کیا جانا تھا جبکہ اس مد میں 1161ارب روپے حاصل ہوئے مگر اب چونکہ معیشت کو بہتر بنانا ہے تو پیٹرولیم لیوی کے ذریعے 1468ارب روپے جمع کرنیکا ہدف رکھا گیا ہے ۔یعنی عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہونے پر بھی عوام کسی قسم کی اچھی خبر کی اُمید نہ رکھیں کیونکہ پیٹرول لیوی جتنی زیادہ ہوگی، انکے منتخب نمائندوں اور سرکاری افسروں کو اتنی ہی وافر مقدار میں مفت پیٹرولفراہم کیا جاسکےگا تاکہ وہ مزید جانفشانی کیساتھ عوام کی خدمت کر سکیں۔عوام کیلئے ایک بری خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اورسابق وزیر اعظم میاں نوازشریف گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔اس سے پہلے جب پی ڈی ایم کی حکومت تھی تو وہ عوام کے حقوق کا مقدمہ پیش کیا کرتے تھے۔ بتایا گیا کہ ایک بار اعلیٰ سطح کے اجلاس میں جب وزیراعظم شہباز شریف نے پیٹرول مہنگا کرنیکا فیصلہ کیا تو میاں نوازشریف نے سخت خفگی کا اظہار کیا اور اجلاس سے اُٹھ کر چلے گئے مگر اب انکی عدم مداخلت کے بعد کسی قسم کی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔

جہاں تک معاشرتی بگاڑ اور بدزبانی کا تعلق ہے تو شیخ ابوبکر ترمذی کا ایک قول یاد آرہا ہے۔ انہوں نے معاشرتی بگاڑ کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھا ہےـ:’’اُمرا بگڑیں تو رعیت کی معاش بگڑ جاتی ہے‘ علماء بگڑیں تو شریعت کا طریق بگڑ جاتا ہے اور جب فقراء بگڑیں تو لوگوں کے اطوار و اخلاق خراب ہو جاتے ہیں۔ امراء کا بگاڑ ظلم‘ علماء کا بگاڑ طمع اور فقراء کا بگاڑ ریا کاری ہے۔‘‘لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا کہ طبقہ اُمرا کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ ہو،پہلے چینی درآمد کرکے مال بنائیں اور پھر چینی درآمد کرکے دولت کمائیں ،عوام پر ظلم و جبر کا سلسلہ بلا توقف جاری رہے اور انکے اخلاق واطوار نہ بگڑیں۔معروف فلسفی ابن خلدون نے کہاتھا:’’جب لوگ بھوکے ہوتے ہیں تو اُنکے اخلاق بگڑ جاتے ہیں۔‘‘روسی دانشور اور ادیب دوستوفیسکی نے یہی بات ایک اور انداز میں کہی کہ ’’پہلے لوگوں کو کھانا دو، پھر اُن سے نیکی اور فضیلت کی توقع رکھو۔‘‘گویا دونوں مفکرصدیوں پر محیط فاصلے کے باوجود، ایک ہی حقیقت پر متفق نظر آتے ہیںکہ عزتِ نفس بھوک کے سائے میں پروان نہیں چڑھتی اور خالی پیٹ کی بنیاد پر اخلاقیات کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ ساحر لدھیانوی نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’مادام ‘‘میں اس تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے کہ مفلسی ایک ایسا عفریت ہے جو اخلاقیات اور آداب کو نگل جاتا ہے ۔

آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام

لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے

میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی

میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے

نور سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا

ہم جہاں ہیں،وہاں تہذیب نہیں پل سکتی

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی

یہ پوری نظم ہی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ وزیراعظم شہبازشریف حبیب جالب کی نظمیں بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے ،کبھی ساحر لدھیانوی کے اشعار پر بھی فکر و تدبر کریں۔

تازہ ترین