• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: دلہن کا شادی کے موقع پر حق مہر فوری ادا کردیا گیا، اس کے علاوہ شادی کے دن دلہانے دلہن کو سونے کا زیور سلامی میں دیا، دلہا کی بہنوں اور والدہ نے سونے کی انگوٹھیاں اور سونے کا زیور دیا۔ 

معلوم یہ کرنا ہے کہ طلاق کی صورت میں یہ زیور جو لڑکی کو سسرال سے دیا گیا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے، کیا یہ واپس لیاجاسکتا ہے؟ (عبداللہ، کراچی)

جواب: شادی /نکاح کے موقعے پر دلہن کو شوہر یاسسرال والوں کی جانب سے جو زیورات، لباس، سامان اور تحائف وغیرہ ملتے ہیں، اسے عرفِ عام میں ’’بری‘‘ کہا جاتا ہے۔ بری کے سامان کی ملکیت و استحقاق کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں نارمل حالات میں اٹھتا ہی نہیں ہے، اگر عائلی و ازدواجی زندگی خوشگوار ہے، باہم محبت ہے، سب معاملات ٹھیک ٹھاک چل رہے ہیں، تو اس طرح کے سوالات خواب و خیال میں بھی نہیں آتے، چہ جائیکہ کہ عملی زندگی میں اِن کو چھیڑا جائے، تاہم ان کی ممکنہ صورتیں اور ان کے احکام درج ذیل ہیں:

(۱)یہ کہ کسی علاقے، کمیونٹی یا برادری میں یہ معروف اور طے شدہ اصول ہو کہ بری کا سامان شوہر یا اس کے خاندان کی ملکیت ہوتا ہے ، تو عرف بھی نصِ شرع کی طرح مؤثر ہوتا ہے اور اسی پر معاملات کا فیصلہ ہوگا اور عورت کے لیے محض تصرف و استعما ل کی اجازت ہی سمجھی جائے گی اور طلاق کی صورت میں وہ سامان شوہر کا ہوگا اور اس کی وفات کی صورت میں وہ اس کے ترکے میں شمار ہوگا۔

(۲)شادی کے موقع پر باقاعدہ تحریری طور پر یا زبانی طے کرلیا جائے کہ بری کا سامان کس کی ملکیت ہوگا تو بعد میں اسی کے مطابق عمل ہوگا اور بہتر یہی ہے کہ شادی کے موقع پر نکاح نامے میں یہ درج کرادیا جائے کہ بری کے زیورات اور سامان کس کی ملکیت ہوں گے، تاکہ بعد میں خدانخواستہ طلاق یا شوہر کی وفات کی صورت میں تنازع نہ پیدا ہو۔

(۳) شادی کے موقع پر یہ سامان دلہن کو ہبہ کردیا گیا ہو، لیکن بعد میں زوجین میں اختلافات رونما ہونے کی بناء پر نیت میں فتور آجائے تو ہبہ کرکے اس سے رجوع کرنے کو حدیثِ پاک میں ایک معیوب اور ناپسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے اور یہ مکروہ ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’ہبہ کرکے اس سے رجوع کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو قے کرکے دوبارہ اسے چاٹ لے، (صحیح مسلم: 4062)‘‘۔ (۲)ترجمہ: ’’جو شخص صدقہ کرکے اس سے رجوع کرتا ہے، اس کی مثال اس کتے کی سی ہے جو قے کرتا ہے، پھر لوٹ کر اسے کھالیتا ہے، (صحیح مسلم: 4058)‘‘۔

امام احمد رضا قادریؒ فرماتے ہیں:’’دلہن کا گہنا جوڑا جو بری میں جاتا ہے، اگر نصّاً یا عرفاً اس میں بھی تملیک ہوتی ہو، جیسے شکر، میوہ، عطر پھل وغیرہ میں مطلقاً ہوتی ہے، تو وہ بھی قبضۂ منکوحہ، ملکِ منکوحہ ہوگا، ہمارے یہاں شرفاء کا عرفِ ظاہر یہی ہے، ولہٰذا بعد رخصت اس کے واپس لینے کو سخت معیوب و مُوجِبِ مطعونی جانتے ہیں، اور اگر لے لیں تو طعنہ زن یہی کہتے ہیں کہ دے کر پھیرلیا یا صرف دکھانے کو دیا تھا، جب دلہن آئی چھین لیا، یعنی یہ ان کی رسمِ معہود کے خلاف ہے، اس صورت میں تو اس کے لیے بعینہ وہی احکام ہوں گے، جو دولہا کے جوڑے میں گزرے کہ بعد ہلاک دلہن سے تاوان لینے کا اصلاً اختیار نہیں، جیسے شکر، میوہ کا تاوان بٹنے کے بعد نہیں مل سکتا، اگرچہ ہنوز کھانے میں نہ آیا ہو‘‘۔ 

آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’ہاں! جہاں عرف تملیک نہ ہو بلکہ صرف پہنانے کے لیے بھیجا جاتا ہو اور پہنانے والوں ہی کی مِلک سمجھا جاتا ہو، وہاں دلہن کی ملک نہیں، ایک عاریت ہے کہ بحالتِ بقا جس سے رجوع ہر وقت جائز و حلال، (فتاویٰ رضویہ، جلد 12، ص:208)‘‘۔

ہماری دانست میں ہمارے یہاں بھی معزز خاندانوں اور شرفا کا معمول اور عرف یہی ہے کہ بری کا سامان و زیورات وغیرہ دلہن کو بطورِ ملک دیے جاتے ہیں اور وہ ان پر مالکانہ تصرف کرتی رہتی ہے، زوجیت رجوع سے مانع ہے یعنی بیوی کو کوئی شے ہبہ کرنے کے بعد اس سے رجوع نہیں کیاجاسکتا۔ والدین کی جانب سے ملنے والا زیور اور جہیز کا تمام سامان لڑکی کی ملکیت ہوتا ہے اور علیحدگی یا طلاق کی صورت میں وہ اس سامان کی حق دار سمجھی جاتی ہے۔ 

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر شوہر اور اس کے رشتے داروں نے مذکورہ زیور دلہن کو ہبہ(Gift)کردیے تھے، تو اب واپسی کا تقاضا کرنا مکروہ (ناپسندیدہ )عمل ہے ،البتہ اگر عاریتاً (محض استعمال کے لیے) دیا تھا، تو واپس لے سکتے ہیں، عموماً بعض خاندانوں میں باہمی رضامندی سے فریقین ایک دوسرے کا دیے ہوئے سامان کے تبادلے پر فیصلہ کرتے ہیں، اپنے خاندانی دستور کے موافق یا اپنی برادری کی مُسلّمہ روایات کے مطابق فیصلہ کرسکتے ہیں۔

اقراء سے مزید