تفہیم المسائل
سوال: یہاں سعودی عرب میں اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر ایک بندہ نماز پڑھ رہا ہے، تو پیچھے دوسرا آنے والا شخص اس کے پیچھے اقتداء میں کھڑا ہو جاتا ہے، حالانکہ وہ یہ نہیں جانتا کہ نماز پڑھنے والا پہلا شخص سنّتیں پڑھ رہا ہے یا فرض یا نفل پڑھ رہا ہے۔
اس کے پیچھے وہ اس کی اقتداء میں کھڑا ہو جاتا ہے، جو آگے نماز پڑھ رہا ہے، اسے بھی نہیں پتا کہ میرے پیچھے پوری جماعت کھڑی ہوگئی ہے، اُس کی نیت ہی نہیں ہوتی، تو اس تناظر میں جو آگے نماز پڑھ رہا ہے یا جو پیچھے آ کر اس کی اقتداء میں کھڑا ہوگیا، اُن کی نماز ہوگی یا نہیں؟ (فیصل، سعودی عرب)
جواب: بات اگر حرمین طیبّین میں نماز کی ادائیگی کی ہے، تو آئیڈیل صورت یہی ہے کہ وقت پر جماعت میں شامل ہوں، یوں ہی کسی کے پیچھے کھڑے ہوکر نیت باندھنا درست عمل نہیں ہے، جب کوئی شخص تنہا فرض نماز پڑھ رہا ہو اور وہ سنّی صحیح العقیدہ،صحیح القرأت، صحیح الطہارۃ، غیرفاسق، قابل امامت ہو اور دوسرا شخص آکر اُسے اطلاع دے کر اس کی اقتداء کرنے لگ جائے، تو اس طرح سے اقتداء کرنا درست ہوجائے گا، فی نفسہٖ اس میں کوئی خرابی نہیں اور اس صورت میں پہلے شخص کو چاہیے کہ وہ امامت کی نیت بھی کرلے، تاکہ جماعت کا ثواب بھی حاصل ہوجائے، ورنہ اگر نیت نہ بھی کرے، تو جماعت بہر حال ہوجائے گی، بس جماعت کا ثواب نہیں ملے گا۔
علّامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں:’’ امام بھی وہی نیت کرے گا جو تنہا نماز پڑھنے والا کرتا ہے، امام کو نیت امامت کی حاجت نہیں، یہاں تک کہ اگر اس نے نیت کی کہ وہ فلاں کی امامت نہیں کرے گا اور وہ فلاں شخص آکر اس کی اقتداء کرنے لگا، تو یہ جائز ہے، ’’فتاویٰ قاضی خان ‘‘ میں اسی طرح ہے، البتہ عورتوں کا امام بغیر نیت کے نہیں ہوسکتا، اسی طرح محیط میں ہے، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد1،ص66)‘‘۔
اَلاشْبَاہ وَالنَّظَائِر میں ہے: ترجمہ:’’حصولِ ثواب کے لیے امامت کی نیت کب کی جائے، اس حوالے سے میں نے جزئیہ نہیں دیکھا، ہونا یہ چاہئے کہ نیت اس وقت کی جائے، جبکہ کوئی اس کی اقتداء کررہا ہو، اس سے پہلے نہیں‘‘۔ غَمْزعُیُونُ الْبَصَائِر فِی شَرح الأَشْبَاہ وَالنَّظَائِر میں ہے: ترجمہ:’’یہاں بات ثواب کی ہورہی ہے، نہ کہ امامت کی صحت کے لیے نیت کی، کیونکہ عورتوں کی اقتداء کی صورت کے علاوہ صحت امامت کے لیے نیت شرط نہیں ہے، لہٰذا امامت کی نیت محض ثواب کے لیے ہوگی، (غمز العیون والبصائر، ج01،ص155)۔
البتہ ایسے مواقع پریہ خیال رہے کہ اگر نمازجہری قرأت والی ہو اور جس رکعت میں شامل ہوا، وہ پہلی دو میں سے کوئی ہو، تو جتنی قرأ ت باقی ہے، وہ جہری کرنا ضروری ہوگا۔ نیز اسی طرح اگرحنفی، شافعی کے پیچھے یا شافعی، حنفی کے پیچھے پڑھے تواس حوالے سے جو ضروری مسائل ہیں، ان کالحاظ بھی ضروری ہے۔
اکیلا جماعت کرانا درست نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہا تھا،ایک اور شخص اس کے ساتھ نماز میں شامل ہونے لگے تو بعد میں آنے والا اکیلا شخص پہلے سے نماز پڑھ رہے شخص کے دائیں طرف کھڑا ہوجائے، تاکہ یہ اس کا امام بن جائے اور اُسی وقت جماعت کی نیت کرلے۔ پھر جب دوسرا شخص آ جائے تو پہلے والا پیچھے ہوجائے، تاکہ صف بن جائے، یہ درست ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں کی نماز ایک ہو، مثلاً ظہر کا وقت ہو تو امام اور مقتدی دونوں ظہر کی نماز پڑھ رہے ہوں، تو یہ درست ہے۔
علّامہ زین الدین ابن نُجیم حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ صحتِ اقتدا ءکی ایک شرط یہ ہے کہ امام ومقتدی کی نماز ایک ہو (یعنی دونوں ایک ہی وقت کی ادا یا قضا نماز پڑھ رہے ہوں) اور وہ اس طرح کہ مقتدی کے لیے امام کی نیت کے مطابق نماز میں داخل ہونا ممکن ہو ،نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد :’’ امام ضامن ہے ‘‘ تاکہ امام کی نماز مقتدی کی نماز کو مُتضمّن ہو، یعنی امام کی نماز مقتدی کی نماز کو مُتضمّن ہے، سے یہی مراد ہے، (البحرالرائق، جلد1،ص:631-32)‘‘۔
اگر امام صاحب نفل، سنّت یا وتر پڑھ رہے ہوں تو اس کے پیچھے فرض نماز نہیں ہوتی۔ اسی طرح دونوں ادا نماز پڑھ رہے ہوں، یہ نہ ہو کہ امام قضا نماز پڑھ رہا ہو اور مقتدی ادا نماز پڑھ رہا ہو۔ قضا اور ادا کی نیت ایک ساتھ درست نہیں، البتہ اگر دونوں کی نماز قضا اور ایک وقت کی ہو تو درست ہے۔
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
darululoomnaeemia508@gmail.com