ڈاکٹر سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری
حسد کا مطلب ہے’’کسی دوسرے کی خوش حالی پر جلنا اور تمنا کرنا کہ اس کی نعمت اور خوش حالی دور ہوکر اسے مل جائے۔‘‘حاسد وہ ہے جو دوسروں کی نعمتوں پر جلنے والا ہو۔ وہ یہ نہ برداشت کرسکے کہ اللہ نے کسی کو مال، علم، دین، حسن ودیگر نعمتوں سے نوازا ہے۔
بسا اوقات یہ کیفیت دل تک رہتی ہے اور بعض اَوقات بڑھتے بڑھتے اس مقام تک آپہنچتی ہے کہ حاسد (حسد کرنے والا) محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے خلاف کچھ عملی قدم اٹھانے پہ آ جاتا ہے۔ اس کی کیفیت کا اظہار کبھی اس کی باتوں سے ہوتا ہے اور کبھی اس کا عمل اندرونی جذبات و اِحساسات کی عکاسی کرتا ہے۔
حسد کی کیفیت جب تک حاسد کے دل ودماغ تک محدود رہے، محسود کے لیے خطرے کا باعث نہیں بنتی، بلکہ وہ سراسر حاسد کے لیے ہی وبالِ جان بنا رہتا ہے اور یوں وہ اپنی ذات کا خود ہی بڑا دشمن بن بیٹھتا ہے، لیکن جب وہ اپنی جلن کو ظاہر کرنے لگے تو یہی وہ مقام ہے جس سے پناہ مانگنے کے لیے خالق ارض و سماء نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے:’’وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَد‘‘ میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے۔‘‘ (سورۃ الفلق)
اس آیت مبارکہ میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ ’’حاسد کے شر سے پناہ مانگو‘‘ بلکہ اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ’’حاسد کے شر سے پناہ مانگو، جب وہ حسد کرنے لگے‘‘ کیونکہ جب تک اس کا حسد ظاہر نہیں ہوتا، تب تک وہ ایک قلبی وفکری بیماری ہے جس کا تعلق حاسد کی ذات سے ہے اور یہ درجہ محسود کے حق میں نقصان دہ نہیں ہے۔
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے پہلے ہی یہ پیش گوئی فرمادی تھی کہ یہ اُمت حسد اور بغض کی بیماریوں میں مبتلا ہوگی۔حضرت زبیر بن عوام ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ تم میں گزشتہ اقوام کی بیماریاں داخل ہوں گی، جن میں سے حسد اور بغض بھی ہے اور یہ مونڈھ دینے والی ہوں گی، یہ بال نہیں، بلکہ دین کا صفایا کردینے والی ہے، اس ذات اقدس کی قسم، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤ گے، جب تک کہ مومن نہ بن جاؤ، اور اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے، جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں، اگر تم اُسے کرو تو آپس میں محبت پیدا ہوگی؟ وہ یہ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرو‘‘(جامع ترمذی )
رسول اکرم ﷺ نے اسی حسد کی تباہ کاریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، جیسا کہ الترغیب والترہیب میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’دو بھوکے بھیڑیے، بکریوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے، جس قدر مال کی حرص اور حسد مسلمان کے دین کو برباد کرنے والا ہے اور حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس سے بچنے کی خصوصی وصیت فرمائی۔
حضرت انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا،’’ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، نہ حسد کرو، نہ غیبت کرو اور اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔( صحیح بخاری)
انسان کا نفس بنیادی طور پر دوسروں سے بلند وبرتر رہنا چاہتا ہے۔ جب وہ کسی کو اپنے سے بہتر حال و مقام پر دیکھتا ہے تو یہ چیز اس پر گراں گزرتی ہے، لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے، تاکہ ہم دونوں برابر ہوجائیں۔ یہ حسد کی بنیادی وجہ ہے۔
حسد عموماً ہمسر اور ہم پلہ اَفراد میں ہوتی ہے۔ مثلاً بہن بھائیوں میں، دوستوں میں، افسران میں، تاجر تاجر سے حسد کرے گا، طالب علم، طالب علم سے اور اہل قلم، اہل قلم سے حسد کریں گے اور حسد کی جڑ اس فانی دنیا کی محبت ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے اَسباب ہیں۔ ایمان کی کمزوری بھی حسد کا باعث بنتی ہے۔
حسد مفرد بیماری نہیں ہے، بلکہ بہت سی روحانی بیماریاں مل کر حسد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں، لہٰذا اس کے نقصانات بھی بہت سارے ہیں اور یہ ہمارے دین، دنیا و آخرت، شخصیت اور معاشرے پربری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں لوگوں کے لیے حسد کے جذبات کے بجائے رشک کے جذبات پیدا فرمائے۔ (آمین)