• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور ان کا حل

سوال: اگر کسی نے گھر بنانے کے لیے بینک سے قرض لینا ہو، مگر اس پر کچھ سود بھی ادا کرنا لازمی ہو تو ایسا قرضہ مجبوری میں جائز ہے یا نہیں؟ مہربانی فرماکر اس پر روشنی ڈالیں!

جواب: ذاتی مکان دنیاوی ضروریات میں سے اہم ضرورت ہے، دینِ اسلام نے بھی بہت سے احکام میں اسے بنیادی ضرورت شمار کیا ہے، لیکن دنیا کے عارضی مکان کے مقابلے میں آخرت کا دائمی گھر اس سے بڑھ کر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، مسلمان کی فکر یہ ہونی چاہیے کہ دنیا کے جائز مقاصد کے حصول کی خاطر آخرت کا نقصان نہ ہو۔ 

گھر بنانے کے لیے سودی قرض لینے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا اندیشہ ہے، جو آخرت کی تباہی کا سبب ہے، لہٰذا ذاتی ضرورت کا مکان بنانے کے لیے بھی سودی قرض لینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 

قرآن و سنّت کے مطابق جس طرح سود لینا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اسی طرح سود دینا بھی کبیرہ گناہ اور حرام ہے، سودی لین دین، سودی معاملے کی لکھت پڑھت اور اس کی گواہی ان تمام اعمال پر حدیث شریف میں لعنت وارد ہوئی ہے، اورقرآنِ کریم میں سودی لین دین سے باز نہ آنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ مذکور ہے۔

آمدن محدود ہونے کی وجہ سے اگر کسی کے لیے ذاتی مکان بنانا مشکل ہے اور کرائے کے مکان میں رہائش رکھنے میں مشکلات ہیں تو سودی قرض لینے کے بجائے حلال آمدن کے مزید ذرائع تلاش کرنے چاہییں۔ نبی کریم ﷺ نے کسبِ حلال کی ترغیب دی ہے اور جمود و کاہلی کی حوصلہ شکنی و مذمّت کی ہے۔ 

آپ ﷺ کے سامنے ایک ضرورت مند نے سوال کیا تو آپ ﷺ نے اس کے گھر کا کُل اَثاثہ (جو ایک پیالے اور ایک دری نما موٹے کپڑے پر مشتمل تھا) بولی لگا کر دو درہم میں فروخت کروادیا، ایک درہم سے اُسے اپنے گھر کے راشن کے انتظام کا فرمایا اور ایک درہم سے کلہاڑی منگوا کر اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگا کر سائل کے حوالے کیا اور حکم فرمایا کہ جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور بیچو، اور فرمایا کہ پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔ 

پندرہ دن بعد وہ شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دس درہم جمع کرکے ان سے گھر کے راشن اور کپڑوں کا بہتر انتظام کرچکے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن سوال (بھیک مانگنے) کا داغ تمہارے چہرے پر ہو۔

اگر کوئی شخص فرائض اور اپنے ذمے لازم ہونے والے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ، حرص و ہوس سے بچ کر، جائز ذرائعِ آمدن میں رہتے ہوئے حلال روزی کماتا ہے تو اس کے لیے کمائی کی کوئی حد بندی نہیں ہے، جب کہ رہائشی مکان تو بنیادی ضرورت ہے، لہٰذا اگر کسی شخص کے موجودہ ذرائعِ آمدن اس مقصد کے حصول کے لیے کافی نہیں ہیں تو اُسے حلال روزگار کے مزید اسباب اختیار کرنے چاہییں۔ 

یہ بھی کوئی دانش مندی ہے کہ آمدن محدود ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ بچت نہ ہو اور سودی قرض لے کر قسطوں میں سود در سود ادا کیا جائے! غرض اوّلًا دیگر ذرائعِ آمدن پر توجہ دینی چاہیے، اور مکان کی فوری ضرورت ہو اور قرض لینا ناگزیر ہو تو غیر سودی قرض کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے، جب تک حلال آمدن یا غیرسودی قرض سے مکان کا انتظام نہ ہوسکے اس وقت تک کرائے کے مکان میں ہی گزارا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سودی قرض لینے کی گنجائش اسی وقت ہوسکتی ہے ،جب اضطراری حالات پیدا ہوجائیں کہ سودی قرض لیے بغیر زندگی گزارنا ہی مشکل ہوجائے۔ مذکورہ شخص کی ضرورت کس حد تک ہے؟ یہ خود سوچ لیں! اگر ایسی ضرورت نہیں ہے تو سود پر قرض لینے سے وعید کے مستحق ہوں گے۔ 

بظاہر ان کی حالت اضطراری نہیں ہے، اس لیے ان کے لیے بینک سے سودی قرضہ لینا درست نہیں ہے ۔ (البحر الرائق 6، کتاب البیوع، باب الربا 3/ 137 ط ط: دارالکتاب الاسلامی، الاشباہ و النظائر ص: 78 ط: دار الکتب العلمیۃ، ، کفایت المفتی ، کتاب الربا 8/ 106 ط: دار الاشاعت)

ذاتی مکان کے لیے وضو کے دوران، فرض نمازوں کے بعد اور دن میں کسی بھی وقت دو رکعت نفل نمازِ حاجت کی نیت سے پڑھ کر یہ دعا (اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ ذَنْبِيْ وَ وَسِّعْ لِيْ فِيْ دَارِيْ وَبَارِكْ لِيْ فِيْ رِزْقِيْ) پڑھا کریں ان شاء اللہ تعالیٰ ذاتی مکان کا جلد انتظام ہوگا۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خزانۂ غیب سے جلد اور بابرکت کشادہ گھر عطا فرمائیں۔( آمین)

اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

iqra@banuri.edu.pk