آپ کے مسائل اور ان کا حل
سوال: ایک مارکیٹنگ کمپنی ہے جو ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری پر سرمایہ لگانے والے کو ماہانہ آٹھ سے بارہ ہزار کے درمیان منافع دیتی ہے، اور ان کمپنی والوں کا کہنا ہے کہ ہم ان پیسوں سے چاول، گلابی نمک اور فرنیچر وغیرہ کا کاروبار کرتے ہیں، اس لیے یہ سودی لین دین نہیں، بلکہ مضاربہ ہے، اور اس سلسلے میں ایک دلیل وہ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ سودی منافع فکس ہوتا ہے، اور جو منافع ہم کمپنی والے دے رہے ہیں وہ فکس نہیں، بلکہ ہر مہینے اوپر نیچے یعنی کبھی آٹھ تو کبھی دس کبھی بارہ ہوتا رہتا ہے، اور اسی لین دین کے حوالے سے کمپنی والوں کے پاس لاہور کے ایک مفتی صاحب کا مختصر فتویٰ جس کی فوٹو کاپی اس خط کے ساتھ منسلک ہے، بھی موجود ہے جس میں وہ لین دین کو جائز اور اس پر ملنے والا منافع حلال قرار دے رہے ہیں۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا اس کمپنی کے ساتھ مذکورہ بالا تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے شراکت داری جائز ہے یانہیں ؟
جواب: مضاربت کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ سرمائے سے حاصل ہونے والانفع، سرمایہ دار اور مضارِب (کام کرنے والے) کے درمیان نفع کے فیصد کے اعتبار سے طے کیا جائے، یعنی اصل سرمائے کے فیصدی تناسب سے تو طے نہ کیا جائے، لیکن حاصل شدہ نفع کے شرح فیصد کے اعتبار سے نفع کی مقدار معلوم ہو، چوں کہ مذکورہ کمپنی اور اس میں پیسے لگانے والے کے درمیان نفع فیصد کے اعتبار سےطے نہیں کیا جاتا، لہٰذا مذکورہ کمپنی میں پیسے لگانا جائز نہیں ہے۔
نیز کوئی معاملہ صرف سود کی وجہ سے حرام نہیں ہوتا، بلکہ سود کے علاوہ دیگر وجوہات کی وجہ سے بھی معاملہ فاسد ہوجاتا ہے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام: الکتاب العاشر الشرکات، الباب السابع فی حق المضاربۃ، الفصل الثاني فی بیان شروط المضاربۃ، ج: 3، ص: 430، ط: دار الجیل)