• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: 02نومبر 2025ء اتوار کے دن میں نے اپنی بیوی کو صرف ڈرانے کے لیے چھ مرتبہ لفظ’’ بلاق‘‘ کہا ، وہ مجھ سے دو ہفتے سے خلع کا مطالبہ کررہی تھی، اس کا کہنا ہے کہ اُس نے لفظ طلاق سنا ہے، شرعی حکم کیا ہے؟ ( طلحہ کمال، کراچی)

جواب: مفتی غیب نہیں جانتا بلکہ فریقین کے بیان کردہ احوال کی روشنی میں شرعی حکم بیان کرنا مفتی کا کام ہے۔ اُن کے سچا یا جھوٹا ہونے کا فیصلہ اُن کے اور رب کے درمیان کا معاملہ ہے، چنانچہ اگر کوئی فریق غلط بیانی سے کام لے رہاہے، تو اُس کا وبال خود اُس پر ہے۔

فقہاء نے بعض الفاظ مصحفہ کی تصریح فرمائی، جن سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ اور ان میں سے الفاظ مصحفہ پانچ ہیں: تلاق، تلاغ، طلاغ، طلاک اور تلاک۔ 

قضاء ً ان سے طلاق واقع ہوجائے گی، البتہ اس نے بات کرنے سے پہلے کسی شخص کو گواہ کرلیا ہو کہ میری بیوی مجھ سے طلاق طلب کررہی ہے اور میں اُسے طلاق نہیں دینا چاہتا، تو میں (دھمکانے کے) یہ( غلط لفظ ) کہوں گا اور(الفاظ غلط طور پر ادا کرنے میں) عالم اور جاہل کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور اسی پر فتویٰ ہے،(البحرالرائق ، جلد3، ص:271)‘‘ ۔

تصحیف کے معنیٰ ہیں: ’’کسی کلمہ کو لکھنے یا بولنے میں غلطی کرنا ‘‘، ظاہر ہے صورتِ مسئولہ میں یہاں انجانے میں غلطی مراد نہیں ہے، بلکہ مخاطَب کو ٹالنے کے لیے جان بوجھ کر غلط لفظ بولنا تاکہ اس پر کوئی شرعی حکم مرتّب نہ ہو۔ 

ان کلمات میں لفظ ’’بلاق‘‘ شامل نہیں ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کا اپنی بیوی کو بلاق کہنے کی وجہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، لیکن ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اقراء سے مزید