مولانا حفظ الرحمٰن دہلوی
فتنہ کسے کہتے ہیں؟:۔ ہر طرح کی آزمائش کو فتنہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، مال ودولت کو بھی فتنہ کہا گیا ہے:’’اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں۔‘‘ گویا ہر وہ چیز جو انسان کو اپنے رب سے غافل کردے فتنہ ہے، شہیدِ اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ نے فتنہ کی تعریف یہ کی ہے کہ :’’باطل کو حق کی شکل میں کیا جائے، یہاں تک کہ عام آدمی کو حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوجائے۔‘‘(تحفۂ قادیانیت جلد: ۶ ، ص:۳۱۰)
فتنے مختلف ہیں، اس میں سے ایک انسان کا اندرونی فتنہ ہے، جس کی وجہ سے دل میں خرابی کا ہونا اور عبادت میں حلاوت کا نہ ہونا، اسی طرح کچھ خارجی فتنے ہیں، مثلاً گھر میں، اولاد میں، معاشرے میں فتنوں کا پیدا ہوجانا۔ فتنوں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں، جن کا ذکر محدّث العصر مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے بصائر و عبر میں ایک جگہ کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:
1-عملی فتنے:۔ عملی فتنے یعنی گناہوں کی مختلف قسموں کا امّت میں عام ہوجانا، جیسے: بے حیائی، شراب نوشی، سود خوری وغیرہ، جتنی ان برائیوں میں کثرت ہوگی، اتنا ہی نیکیوں میں کمی واقع ہوگی اور ان برائیوں کےاثرات سارے ہی اعمالِ صالحہ پر پڑیں گے۔
2- علمی فتنے:۔ علمی فتنے جو علوم وفنون کے راستے سے آتے ہیں اور ان کا اثر براہِ راست عقائد پر پڑتا ہے، ان فتنوں کے ذریعہ الحاد و تحریف اور تشکیک کو عام کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک مسلمان اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ‘‘ ہر چیز کی حفاظت کے لیے کچھ تدبیریں ہوتی ہیں، جس کےذریعہ اس چیز کی حفاظت کی جاتی ہے، اسی طرح ایمان کی حفاظت کے لیے کچھ تدبیریں ہیں، جس کے ذریعے ہم اپنے ایمان کو بچاسکتے ہیں:
1- انبیائے کرام علیہم السلام اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کا مطالعہ:۔ انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں بعثت کا مقصد ہی ایمان کی دعوت ہوتا ہے اور جس قدر آزمائش اس ایمان کی وجہ سے اُن پر آتی ہے، کسی اور پر نہیں آتی، اسی لیے انہیں ایمان کی سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے، حالانکہ ان کا ایمان پر خاتمہ یقینی ہوتا ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے ایمان پر خاتمے کی دعا کرتے ہیں، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی، جس کا ذکر سورۂ یوسف میں ہے: ’’اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! آپ میرے کارساز ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، مجھے پوری فرماں برداری کی حالت میں دنیا سے اُٹھا لیجیے اور مجھے خاص نیک بندوں میں شامل کر لیجیے۔ ‘‘جس چیز کی اہمیت جس قدر زیادہ ہوتی ہے، اس کی تاکید اسی حساب سے کی جاتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام کو ایمان کی فکر ہر چیز سے زیادہ تھی، اس لیے وہ اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کرتے تھے کہ ایمان پر جمے رہنا اور اسی پر مرنا جیسے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یعقوبؑ نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی تھی: ’’اور اسی کا حکم کر گئے ہیں ابراہیم ( علیہ السلام ) اپنے بیٹوں کو اور (اسی طرح) یعقوب( علیہ السلام ) بھی، میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے اس دین (اسلام) کو تمہارے لیے منتخب فرمایا ہے، سو تم بجز اسلام کے اور کسی حالت پر جان مت دینا۔‘‘(سورۂ بقرہ:۱۳۲)
2-اہلِ حق علماء اور صلحاء کی صحبت اور ان کی مجالس میں شرکت:۔ ایمان کی حفاظت اور اعمالِ صالحہ کی پابندی اور اخلاق کی درستی کے لیے اللہ والوں کی صحبت ضروری ہے، کیونکہ انسان کے اندر یہ خاصیت ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے خیالات و حالات سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے اور دوسروں کا اثر قبول کرتا ہے، اسی وجہ سے نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی دینِ اسلام میں بہت تاکید آئی ہے، اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ایمان والوں کو اس بات کا حکم دیا کہ سچوں کی صحبت ا ختیار کرو: ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ ‘‘(سورۃ التوبہ: ۱۱۹)
نیک لوگوں کی صحبت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان ان کے احترام اور حیاء کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے بچا رہتا ہے، بلکہ اہل اللہ کی صحبت‘ حفاظتِ ایمان کا بھی ذریعہ ہے، اس حوالے سے حضرت حکیم الامّت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں : ’’صحبتِ اولیاءاللہ میں ایک خاص بات قلب میں ایسی پیدا ہوجاتی ہے کہ جس سے خروج عن الاسلام کا احتمال نہیں رہتا، خواہ گناہ اور فسق و فجور سبھی کچھ اس سے وقوع میں آئیں، لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے۔ ‘‘ (حسن العزیز بحوالہ فضائل ایمان)
عوام کے ساتھ اہلِ علم کے لیے بھی اہلِ حق علماء کی صحبت ضروری ہے، ان کی صحبت کے بغیراہلِ علم کے اندر علم کی گہرائی، عمل کی پختگی، خداخوفی، فکرِ آخرت، اخلاقی بلندی اور شرعی ذمہ داریوں کا احساس پیدا نہیں ہوتا، بلکہ فتنے میں پڑنے کا شدید خطرہ رہتا ہے۔
آج کل کے بہت سے نام نہاد مفکرین اور اسلامی اسکالر جنہیں اعدائے اسلام اور گمراہ لوگوں کی شاگردی میں رہنا نصیب ہوا، جس کے نتیجے میں وہ ان کی زبان بولتے ہیں، اور ان کے ذہن سے سوچتے ہیں، اور کے اندر اعدائے اسلام کی محبت بسی ہوئی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر سے قبولِ حق کی توفیق سلب ہوگئی ہے، ان کا وجود امت کےلیے سراپا فتنہ بنا ہوا ہے۔
3-اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت و فرماں برداری اور برائیوں سے بچنا:۔ایمان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کی کامل پیروی کی جائے اور خلاف ِشرع امور سے اپنےآپ کو بچایا جائے، کیوں کہ نیکی اور برائی کا اثر انسان کے دل پر پڑتا ہے اور دل کی خرابی کا اثر سارے جسم پر ہوتا ہے، جیسا کہ ایک حدیث آتا ہے: ’’خبردار ! بلاشبہ، بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ ٹکڑا صالح رہتا ہے تو تمام بدن میں صالحیت رہتی ہے اور جب اس میں فساد پیدا ہوتا ہے تو پورے جسم کا نظام بگڑجاتا ہے، خبردار! اور وہ ٹکڑا دل ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری)
جتنی نیک اعمال کی کثرت ہوگی، ایمان میں اسی قدر مضبوطی ہوگی اور برائیاں جتنی زیادہ ہوں گی ایمان میں اسی حساب سے کمزوری ہوگی۔ آج ہم لوگ اچھی باتیں پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، لیکن ہمارے دلوں پر ان کا اثر نہیں ہوتا، اس کی اصل وجہ گناہوں کی کثرت ہے۔
4-تلاوتِ قرآن اور ذکر و اذکار اور دعاؤں کا اہتمام:۔ ایمان کی بقا اور فتنوں سے حفاظت کے لیے روزانہ قرآن کریم کی اور خصوصیت کے ساتھ جمعہ کے روز سورۃ الکہف کی تلاوت کا معمول اور صبح شام کےمسنون اذکار، موقع محل کی دعائیں اور ان دعاؤں کے مانگنے کا اہتمام کرنا چاہیے، جس میں ایمان و یقین کی حفاظت اور کفر و ارتداد اور فتنوں سے پناہ مانگی گئی ہے، یہاں کچھ دعائیں ذکر کی جاتی ہیں :
٭ … ’’اللّٰہُمَّ اَعْطِنِيْ إِیْمَانًا صَادِقًا وَیَقِیْنًا لَیْسَ بَعْدَہٗ کُفْرٌ۔‘‘’’ اے اللہ! مجھے ایسا سچا ایمان اوریقین عطا فرمائیے جس کے بعد کفر(وارتداد) نہ ہو!‘‘
٭ … ’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ۔‘‘ ’’ اے اللہ! میں کفرسے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
٭ … ’’ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰی دِیْنِکَ۔‘‘ ’’ اے دلوں کو اُلٹنے پلٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دیجیے۔ ‘‘
٭ … ’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَيْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ‘‘’’اے رب! نہ پھیر ہمارے دلوں کو جب تو ہم کو ہدایت کرچکا اور عنایت کر ہم کو اپنے پاس سے رحمت تو ہی ہے سب کچھ دینے والا۔ ‘‘
٭ … ’’اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا، وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ.‘‘’’اے اللہ! حق بات کی طرف ہماری رہنمائی فرما اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق دے اور ہمیں باطل کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی توفیق دے۔ ‘‘
5-فضائل و عقائد اور فتنوں کے متعلق کتابوں کا مطالعہ اور ان کی تعلیم:۔ دینِ اسلام میں عقائد کی بڑی اہمیت ہے اور آخرت کی نجات عقیدے کی درستی پر موقوف ہے، اس اہمیت کی وجہ سے نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ ابتدا سے ہی بچے کو عقیدۂ توحید و رسالت کی تلقین ہوجائےاور جب بچہ بولنا شروع کرے تو پہلی بات جو اُسے سکھائی جائے وہ عقیدۂ توحید پر مشتمل کلمہ ہو، جیسا کہ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے بچوں کے متعلق یہ تعلیمات دی ہیں کہ: ’’ جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو انہیں ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘ سکھاؤ‘‘، جب ان کے اندر کچھ سمجھ بوجھ پیدا ہو تو اس کلمے کا مطلب اور معنی سکھایا جائے، یہ کلمہ اسلام کے تمام عقائد کو شامل ہے، گویا جو شخص اس کلمے کا اقرار کرتا ہے، اس کے لیے ہر اس بات پر دل وجان سے ایمان لانا فرض ہوجاتا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺنے بتائی ہیں، آج کل بہت سے مسلمان اپنے بچوں کو دینی تعلیم اور اسلامی عقائد نہیں سکھاتے، بلکہ خود بھی ان سے ناواقف ہوتے ہیں، اس ناواقفیت کی وجہ سے بسا اوقات اسلامی عقائد کاا نکار کر کے اسلام کے دائرے سے نکل جاتے ہیں، اس لیے عقائد پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ اور تعلیم ضروری ہے کہ اس سے عقائد کی درستی رہتی ہے۔
فضائل کی کتابوں کی تعلیم و مطالعہ سے اچھے اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات اور نہ کرنے پر وعیدیں سامنے آتی ہیں، برے اعمال کا انجام، دنیا کی حقیقت، موت کے بعد کے مراحل، قبر اور آخرت، جنت، جہنم کے احوال سامنے آتے ہیں، جس کی وجہ سے نیک اعمال کرنے کا شوق اور برے اعمال سے بچنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔
فتنوں کے متعلق احادیث میں ’’کتاب الفتن‘‘ ایک مستقل عنوان ہے، جس میں آپ ﷺ نے فتنوں سے متعلق اپنی امت کی رہنمائی کی ہے اور ان سے بچنے کے بارے میں ہدایات دی ہیں کہ ان سے کیسے بچا جائے؟ ان کے مطالعے سے فتنوں سے آگاہی حاصل ہوتی اور اس سے بچنے کے لیے جو تدابیر بتائی گئی ہیں، وہ بھی سامنے آجاتی ہیں۔
ان فتنوں سے بچنے کی اس حد تک کوشش کیجیے کہ فتنہ پر ور لوگ آپ کو کسی طرح استعمال نہ کرسکیں۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہر طرح کے فتنوں سے بچائے۔ (آمین یا ربّ العالمین بجاہِ سیّد المرسلینﷺ)