ملکی اور دنیا بھر میں موجود امریکی سفارتی اور قونصلر دفاتر کو غیر شفاف غیر ملکی انتخابات پر کی جانے والی تنقید کو محدود کرنے کاحکم دے دیا گیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا نے امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے دنیا بھر میں امریکی سفارتی اور قونصلر دفاتر کو نئی ہدایت جاری کردی۔
نئی ہدایت کے مطابق امریکا غیر ملکی انتخابات کے حوالے سے اپنی رائے مخصوص مواقع تک محدود رکھے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سفارتی اور قونصلر دفاتر اپنے پیغامات میں کسی بھی انتخابی عمل کی شفافیت، دیانتداری، اس کی قانونی حیثیت یا متعلقہ ملک کی جمہوری اقدار پر رائے دینے سے گریز کریں۔
امریکی وزیرخارجہ کی جانب سے سفارتی و قونصلر دفاتر کو بھیجے گئے سرکاری پیغام میں کہا گیا کہ غیر ملکی انتخابات پر بیانات مختصر ہونے چاہئیں، جیتنے والے امیدوار کو مبارکباد دینے اور جہاں مناسب ہو وہاں مشترکہ خارجہ پالیسی مفادات کی نشاندہی تک محدود رہنے چاہئیں۔
مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ انتخابات سے متعلق پیغامات کو کسی نظریے کے فروغ کے بجائے، امریکی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ انتخابات سے متعلق ممکنہ بیانات صدر ٹرمپ کے ایجنڈے کے مطابق تیار کیے جائیں۔
یہ ہدایات محکمہ خارجہ کے ملکی دفاتر اور بیرونی مشنز دونوں پر لاگو ہو گی۔
واضح رہے کہ مغربی میڈیا کے مطابق یہ ہدایت واشنگٹن کی روایتی پالیسی سے واضح انحراف ہے جس کے تحت امریکہ دنیا بھر میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کے فروغ کا علمبردار رہا ہے۔
اس سے قبل طویل عرصے سے غیرملکی انتخابات کی شفافت پر رائے دینا امریکی حکومت کی حکمتِ عملی رہی ہے۔
موجودہ امریکی صدر نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کی مذمت کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے 2022ء میں برازیل کے انتخابات میں شکست کے بعد بغاوت کرنے کی کوشش پر سابق صدر جیر بولسونارو کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے برازیل پر بھاری محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی۔
انہوں نے 2020 میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو سے آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا تھا، جو بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہوں اور اس کے لیے انہوں نے رقم بھی خرچ کی تھی۔
تاہم اب 17 جولائی کو تمام امریکی سفارتی مشنز کو بھیجے گئے داخلی میمو میں کہا گیا کہ انتخابات سے متعلقہ بیانات صرف وزیرِ خارجہ یا محکمہ خارجہ کے ترجمان جاری کریں گے، امریکی سفارتکاروں پر ایسی کسی بھی بیان بازی پر پابندی ہوگی۔
میمو میں صدر ٹرمپ کی 13 مئی کو ریاض میں کی گئی تقریر کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں اُنہوں نے مغربی مداخلت پسندوں پر تنقید کی تھی کہ وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو یہ بتاتے ہیں کہ انہیں اپنے ملک کیسے چلانے چاہئیں۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ اب واشنگٹن کا کام نہیں رہا اور امریکہ صرف شراکت داری پر توجہ دینا چاہتا ہے۔