اقصیٰ منوّرملک، صادق آباد
معزّہ کی شادی کے خاندان بَھر میں مہینوں چرچے رہے۔ جہیز میں دیئے گئے قیمتی ملبوسات، امپورٹڈ کراکری، منہگے نفیس ترین بستر، بیڈ شیٹس، لگژری فرنیچر، غرض ہر چیز بہترین۔ جسے کچھ لوگ حیرت اور کچھ حسرت سے دیکھ رہے تھے۔ 12تولہ سونا اور 50تولہ چاندی کے حسین زیورات، دیکھنے والو ں کی آنکھیں خیرہ کیے دے رہے تھے۔
شہر کی سب سے مشہور مارکی میں شادی کی تقریب ہوئی۔ اور، سُسرالی بھی کچھ کم نہ تھے۔ اُن کی طرف سے بھی بَری میں 50 سوٹ اور 15تولہ سونا دیا گیا۔ جب ہی تو جب بھی میکے آتی یا خاندان کی کسی تقریب میں جاتی، طلائی زیورات سے لدی پھندی ہوتی۔ البتہ جب سے اُس کا سیٹ کے ساتھ کا خاصا بھاری جُھمکا گم ہوا تھا، اُس نے محتاط ہوکر زیور لاکر میں رکھوا دیا تھا۔
خالہ ساس کی بیٹی کی شادی میں اُس نے ڈریس کے ساتھ میچنگ آرٹی فیشل جیولری ہی پہنی۔ ’’سدرہ کو کتنا زیور چڑھایا ہے، خالہ جان نے؟‘‘ معزّہ نے اپنے ساتھ بیٹھی خالہ ساس کی بڑی بہو سے پوچھا۔ ’’امی جان نے اپنے بہوؤں اور بیٹیوں کو برابر زیور دیا ہے۔ پانچ پانچ تولے … سدرہ کا بھی اُتناہی ہے۔‘‘ اُن کے بتانے پر معزّہ کا احساسِ تفاخر بڑھا۔ ’’میرے پاس بھی ستائیس تولہ سونا ہے بھئی، مجھ سے تواتنا زیور سنبھالا نہیں جاتا۔
پچھلے دنوں مَروہ کی شادی میں اتنا بھاری جھمکا گُم ہوگیا تھا، سو مَیں نے سارا زیور لاکر میں رکھوا دیا۔‘‘ اُس نے فخریہ بتایا۔ ’’خالہ جان نے بتایا تھا، تمہارے جُھمکے کا بہت افسوس ہوا… پھر بھی ماشاءاللہ کافی زیور ہے تمہارے پاس، کافی زکوٰۃ نکلتی ہوگی۔‘‘ اِن کے سوال پر اُس نے حیران ہوکر انہیں دیکھا۔ ’’مَیں کون سا کوئی نوکری کرتی ہوں، جو میری الگ کمائی ہوگی، گھر کا سارا نظام ساس، سُسر کے ہاتھ میں ہے، جواد بھی مجھے مہینے میں چند ہزار دیتے ہیں، تو میرے ذمّے زکوٰۃ کہاں؟‘‘
معزّہ نے گویا اُن کی تصحیح کی۔ ’’صرف زکوٰۃ ہی نہیں میری بہن! تمہارے ذمّے قربانی بھی ہے‘‘۔ ’’قربانی…لیکن وہ تو گھر کےسربراہ کے ذمّے ہوتی ہے۔‘‘ معزّہ نے اُن کی معلومات میں اضافہ کرنا چاہا۔ ’’ساڑھے ساتھ تولہ سونا، ساڑھے باون تولہ چاندی یا دونوں ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچتے ہیں یا اُتنی ہی رقم، جس پر ایک سال گزر جائے، تو اُس پر زکوٰۃ اور قربانی فرض ہے۔ اور یہ ہر صاحبِ نصاب پر فرض ہے، اِس کے لیے گھر کا سربراہ ہونا ضروری نہیں۔‘‘ اُنہوں نے سمجھایا تو معزّہ کو تشویش ہوئی۔
’’بھابھی اسکول، کالج میں یہ زکوٰۃ وغیرہ کے بارے میں پڑھا تھا، لیکن عملی طور پر تو کبھی سوچا تک نہیں۔‘‘ ’’کوئی بات نہیں… ابھی اتنی بھی دیر نہیں ہوئی، ایک سال ہی کی زکوٰۃ تمہارے ذمّے ہے، یہ جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کرو۔ چند ماہ بعد تمہاری شادی کو دو سال ہوجائیں گے۔ مطلب دو سالوں سے تم صاحبِ نصاب ہو، تو دوسرے سال کی زکوٰۃ بھی تمہارے ذمّے واجب الادا ہوگی۔‘‘
معزّہ خاموشی سے سُنتی کسی گہری سوچ میں ڈوبی تھی، گویا حساب کتاب کر رہی ہو۔ ’’بھابھی! میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں کہ مَیں زکوٰۃ ادا کروں۔ جواد جو پیسے دیتے ہیں، وہ تو میں ساتھ ساتھ خرچ کرلیتی ہوں۔ صرف زیور ہی ہے۔‘‘ وہ جانتی تھیں کہ وہ بڑے کُھلے دل اور کُھلے ہاتھ کی لڑکی ہے، پیسا جوڑ کے رکھنا نہیں، خرچ کرنا بخوبی جانتی ہے۔ ’’تم اپنے میاں سے بات کرو، وہ تمہیں اتننے پیسے دے دیتے ہیں، تو بہتر ہے، ورنہ تمہیں اپنے زیور سے بھی ادا کرنی پڑے، تو بیچ کر کرو، بصورتِ دیگر بہت بڑی سزا ہے۔
ہمارے یہاں بیٹیوں، بہوؤں کو زیور سے تو لاد دیا جاتا ہے، مگر اُنہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ اِس کی زکوٰۃ بھی دینی ہے۔ یوں والدین، زیور کو اُن کے لیے وبالِ جان بنادیتے ہیں۔‘‘ وہ بولتی چلی گئیں اور معزّہ کی آنکھوں سے غفلت کے پردے ہٹتے چلے گئے۔ وہ کوئی ضِدی یا ہٹ دھرم تو تھی نہیں کہ حق بات جھٹلا دیتی۔ سو، سمجھانے پر فوراً متفق ہوگئی۔
گھر جا کر جواد کو سمجھایا اور ساتھ ہی فیصلہ سُنا دیا کہ ’’آپ مجھے پیسے دے دیتے ہیں، تو ٹھیک ہے، ورنہ مَیں اپنا زیور بیچ کر زکوٰۃ ادا کروں گی۔‘‘ جواباً جواد نے اگلے ہی دن حساب لگوا کرساری زکوٰۃ ادا کردی، تو معزّہ نے بھی پُرسکون ہوکر سجدۂ شُکر ادا کیا کہ ربِ کریم نے اُسے اتنی بڑی غفلت سے بچا لیا تھا۔