2024ء میں حکومت نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کی درخواست قبول کرتے ہوئے ملک میں موجود چینی کا زائد اسٹاک بیرون ملک برآمد کرنے کی اجازت دے دی تھی اور اس وقت شوگر ملز مالکان نے یہ یاددہانی حکومت کو کروائی تھی کہ مقامی طور پر چینی کی قیمت نہیں بڑھے گی اور ملک میں چینی کی قیمت 140 روپے فی کلوگرام رہے گی۔ مگر اب حکومت نے ملک میں چینی کی بڑھتی قیمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چینی کی در آمد کی اجازت دے دی ہے۔ اور اس درآمد ی اسٹاک پر تمام ٹیکسوں سے استثنیٰ بھی عطا کر دیا ہے۔ اس مہربانی کی بھنک ا نٹرنیشنل مانیٹری فنڈ المعروف آئی ایم ایف کے حکام کو بھی مل گئی ہے اور انہوں نے اس پر حکومت سے جواب مانگ لیا ہے۔
چینی کی درآمد و برآمد ہمیشہ سے ملک میں کمائی کا اہم ذریعہ رہاہے۔عوام پر مہنگائی کا بم گرا کر حکومت میں موجود اشرافیہ اپنی جیبیں بھرتی رہی ہے اگر اب درآمد کر کے چینی کی قیمت ایکس مل 165 روپے فی کلواور مارکیٹ قیمت 173 سے 175 روپے فی کلو طے کی جارہی ہے یعنی 140روپے فی کلوسے بڑھا کر 175روپے فی کلوکا مطلب35روپے فی کلو یکدم اضافہ ہے۔جبکہ اس وقت مارکیٹ میں چینی 200روپے فی کلومیں فروخت ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت کے دور میں چینی کی برآمدکی اجازت دینے پر موجودہ حکمرانوں نے جو اس وقت اپوزیشن میں تھے ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے جہانگیر ترین اور دوسرے سیاستدان عدالتی کارروائی کا سامنا کرتے رہے۔ اب اس وقت کی اپوزیشن اور موجودہ حکمرانوں نے گزشتہ سال چینی برآمدکی اوردرآمد کرنے کی طرف جارہے ہیں اس کے خلاف سب سے پہلی آواز سابق نگران وزیر فواد حسن فواد نے اٹھائی ہے اور حکومت کو چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور اسٹاک کی مانیٹرنگ کا مشورہ دیا ہے۔ فواد حسن فواد سابق بیورو کریٹ ہیں اور بہت سی باتوں سے باخبر ہیں، انکے خیال میں ملک میں چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں اور چینی کی درآمد مشروبات کی انڈسٹری کو فائد ہ پہنچانےکیلئے کی جارہی ہے۔
حکومت نے گندم کی فصل آنے پر اسکی قیمت کو ڈی ریگولیٹ کر دیااور اس کی قیمت کے تعین کیلئے مارکیٹ عوامل پر انحصار کیا تھا۔جس کی وجہ سے کسان رل گئے۔مارکیٹ میں انکے گندم کے اسٹاک خریدنے والا کوئی نہ تھااور ان کو گندم اونے پونے داموں فروخت کر نی پڑی۔ اب اگر اسی اصول کو مد نظر رکھا جائے تو چینی کی قیمت کو بھی ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے اور مارکیٹ میں موجود عوامل خود چینی اسٹاک کی دستیابی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسکی قیمت کا تعین کریں۔حکومت کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے اگر انڈسٹری کو چینی کی ضرورت ہے تو وہ خود درآمد کرلے۔
حکومت کی طرف سے چینی کی قیمت مقرر کرنا مہنگائی بڑھانے کے مترادف ہے۔ہر ہفتے کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں اضافہ صارفین اور عوام کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں۔ ابھی چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پریشان عوام سکھ کا سانس بھی نہیں لے پائے تھے کہ حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کو منظور کر دیا۔ پٹرول کی فی لیٹر قیمت5.36روپے فی لیٹر اضافے کے ساتھ272.15روپے مقرر کر دی ہے۔ بقول تحریک انصاف کے زعماء بین الاقوامی سطح پرتیل کی قیمتوں میں کمی آئی ہے جبکہ حکومت نے ملکی سطح پر اضافہ کر کے نہ صرف عام صارف بلکہ انڈسٹری کیلئے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اس اضافے سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا اس سے بین الاقوامی منڈی میں مطابقت پید ا نہ ہونے کی وجہ سے برآمدی آرڈر منسوخ ہونے کا اندیشہ ہو گا۔امریکہ کی طرف سے بنگلہ دیش پر 35فیصد درآمدی ٹیرف کی خبروں نے پاکستان کی گارمنٹس اندسٹری کیلئے نئے کاروباری مواقع پیدا کر نے کا عندیہ دیا تھامگر پٹرول کی قیمتوں نے ان تمام مواقع پر پانی پھیر دیا ۔
کاشتکاروں کی طرف سے گند م، کپاس، مکئی اور چاول کی فصلوں پر بڑھتے ہوئے اخراجات نے کاشتکاروں کی قوت خرید کو شدید متاثر کیا ہے اوروہ زرعی مشینری اور مداخل خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ سے ملک میں ٹریکٹرز کی فروخت میں 36فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور ٹریکٹرز انڈسٹری قیمتوں میں ایک لاکھ روپے فی ٹریکٹر رعایت دینے کے باوجود اپنی سیل کو بڑھانے میں ناکام ہے اس کی وجہ کاشکاروں کی قوت خرید میں کمی ہے۔زراعت اس ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے مگر حکمرانوں کی عاقبت نا اندیش پالیسیوں نے شعبہ زراعت کو شدید متا ثر کیاہے۔کیا وجہ ہے کہ ہمار ے ہاں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 40 من سے 45 من تک ہے جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 65سے70من فی ایکڑ ہے۔ کاشتکا ر اور زراعت ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ اس کے لئے مربوط منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ کسانوں کو کریڈٹ کارڈ اور گرین ٹریکٹر ز اسکیم کا لالی پاپ دے کر صرف زراعت کے کچھ فیصد حصہ کو کور کیا جارہا ہے۔ ہائوسنگ اسکیموں کی وجہ سے شہروں کے اطراف قابل کاشت اراضی بہت تیزی سے کم ہورہی ہے۔ نئی زرعی ٹیکنالوجی اپنانے کی کاشتکار میں سکت نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جس سے سرمایہ دار اپنے سرمایہ کے بل بوتے پر زراعت کو یر غمال بنا کر کسانوں سے ان کی پیداواراونے پونے خرید کر اپنے بڑے بڑے اسٹوروں میں رکھ لیا کرینگے اور بوقت ضرورت اپنی من مانی قیمتوں پر فروخت کریں گے۔ ہمیں چھوٹے کاشتکار کی مدد کے لئے مربوط منصوبہ بند ی کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ان کی پیداوار کو مارکیٹ میں منافع پر فروخت کرنے کے لئے نظام ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو مڈل مین، آڑھتی اور کارپوریٹ سسٹم سے مبرااور پاک ہو۔