• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری ذاتی رائے میں جس بندے کو شوگر ہو اور وہ بہت زیادہ سیاسی پوسٹس لگاتا ہو، اسے روزانہ چھ سات ہٹے کٹے آم ضرور کھانے چاہئیں، اس سے اس کے پڑھنے والوں کا بہت بھلا ہوگا۔ہر خوش ذوق انسان کی طرح مجھے بھی آم پسند ہیں لیکن فی الحال میری قسمت میں لگ بھگ چھلکے ہی آرہے ہیں۔ ملازم کو ہدایت تھی کہ جب بھی آم کاٹے‘ مجھے گٹھلی نہ دیا کرے۔ وہ چالاک انسان اب اس طرح آم کاٹتا ہے کہ سارا آم گٹھلی کے ساتھ لگا رہ جاتا ہے اور چھلکے میرے نصیب میں آجاتے ہیں۔اللہ نے اسے ایسے معاملات میں وافر عقل عطا کی ہے۔ ایک دفعہ رات کو ایک ڈرامے کا اسکرپٹ لکھتے ہوئے مجھے اچانک بہت بھوک محسوس ہوئی، میں نے اسے مارکیٹ بھیجا کہ دو شوارمے لے آؤ،ایک اپنے لیے،ایک میرے لیے۔آدھے گھنٹے بعد واپس آیا تو خالی ہاتھ تھا۔ وجہ پوچھی تو اطمینان سے بولا،اُس کے پاس صرف میرا ہی شوارما بچا تھا،وہ میں کھاآیا ہوں ،آپ کا شوارما نہیں ملا۔‘

اس موسم میں دو ہی قسم کے بندے ہیں جو آم کی لذت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ ایک تو وہ جو وفات پاچکے ہیں اور دوسرے وہ جو پیسے ہونے کے باوجود خریدنے سے پہلے آم کو اتنا سونگھتے ہیں کہ پیٹ بھرجاتا ہے۔ ہائے...کیا دن تھے جب ابا جی سائیکل پر گھر آتے تھے تو ہینڈل کے ساتھ آموں کا ایک تھیلا بھی لٹکا ہوتا تھا۔ بالٹی میں برف ڈال کر آم ٹھنڈے کیے جاتے تھے اور پھر دستر خوان بچھا کر سارا گھر یہ خوشی انجوائے کرتا تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کرنہایت سلیقے سے کٹا ہوا آم چھری کانٹے سے کھاتے ہوئے ایسا لگتاہے جیسے کوئی ’فرائی آم‘ کھایا جارہا ہے۔ آم وہی جو ’پولا‘ کرکے کھایا جائے۔لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ کسی ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں کسی دنیا دار کی نظر نہ پڑے کیونکہ آم وہ واحد پھل ہے جسے تنہائی میں کھانے کا زیادہ مزا آتاہے۔مجھے قطعاً پتا نہیں کہ زیادہ میٹھاآم کون سا ہوتا ہے تاہم میں ہر دفعہ میٹھے آم خریدنے میں کامیاب ہوجاتاہوں،وجہ صرف یہ ہے کہ پھلوں کی دکان پر پڑے آم اٹھا کر اتنے غور سے دیکھتا ہوں کہ دکاندار کو یقین ہوجاتاہے کہ یہ بندہ کوئی ’آم آدمی‘ ہے۔آم کے متعلق لوگوں نے عجیب و غریب باتیں مشہور کر رکھی ہیں‘ مثلاً یہ کہ آم بہت گرم ہوتاہے۔ ٹھیک ہے کہ جب آپ اسے خریدتے ہیں تو یہ گرم ہوتاہوگا لیکن جب آپ اسے فریج میں ٹھنڈا کرلیتے ہیں تو پھر یہ گرم کیسے ہوگیا؟ میں نے تو جب بھی کھایا ٹھنڈا آم ہی کھایا...لیکن پتا نہیں جب بھی آٹھ دس آم اکٹھے

کھالوں تو دل ’کھرونڈے‘ مارنے کو کیوں کرنے لگتاہے؟ میرا خیال ہے یہ دردِ شقیقہ کی علامت ہے۔ کسی آئی اسپیشلسٹ سے ملنا پڑے گا....!!جولائی میں تقریباً ہر آم ہی میٹھا ہوتا ہے لیکن اس کی طبعی عمر بہت کم ہوتی ہے۔فریج میں رکھتے ہی اس کی واپسی کا سفر شروع ہوجاتاہے لہٰذا جتنی جلدی اس سے لطف اندوز ہوسکیں اتناہی بہتر ہے۔چونکہ آم کا موسم ہے لہٰذا ہر دوسری سڑ ک’شارع آم‘ بنی ہوئی ہے اور جگہ جگہ ’آمیانہ پن‘ کے مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔میرے ایک ہمسائے کو ہر کامیاب انسان سے نفرت ہے لہٰذا وہ سڑک پر چلتے پھرتے آم چوستے ہیں اور جس گھر کی بھی صاف ستھری دیوار نظر آتی ہے چھلکا اُس پر زور سے دے مارتے ہیں۔ان کے اس عمل کے نتیجے میں کئی گھروں کی دیواروں پر ’قتل ِ آم‘ کے نشانات دور سے ملاحظہ کیے

جاسکتے ہیں۔آپ کبھی غور کیجئے گا‘ خواتین عموماً آم شوق سے نہیں کھاتیں‘ اس کی ایک وجہ موٹاپے سے پرہیز بھی ہوسکتا ہے اور دوسری وجہ شوہر حضرات۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر میں آم آئیں تو سب سے پہلے شوہر حضرات ہی اس پر ہلہ بولتے ہیں۔آم کے ’آفٹر شاکس‘ سے بچنے کا طریقہ اطبایہ بتاتے ہیں کہ بعدمیں کچی لسی ضرور پی جائے۔ یہ بالکل ٹھیک ہے کیونکہ کئی لو گ ڈھیروں آم کھانے کے بعد بلبلارہے ہوتے ہیں کہ ’شکیلہ!کنگھی پھڑا....لک وچ کھرک پے گئی اے‘۔یہ جو آپ بازاروں میں اکثر ایک لکڑی کا لمبا سا ڈنڈا دیکھتے ہیں جس کے آخری سرے پر ایک ہاتھ بنا ہوا ہوتاہے یہ کمر کھجانے کا وہ آلہ ہے جوزیادہ آم کھانے والوں کیلئے اکسیر کا درجہ رکھتاہے۔مجھے آج تک اس کا نام نہیں پتا چلا‘ یقیناً ’آلہء کھجاہٹ‘ ہوگا۔آج کل بازار میں ہر طرف آموں سے بھری ریڑھیاں نظر آرہی ہیں۔ آم اور عوام محمود وایاز کی طرح ایک ہوئے پڑے ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے اس موسم میں ایک ہی پھل مارکیٹ میں آیا ہے۔جن لوگوں نے کبھی روٹی کے ساتھ آم نہیں کھایا اُن کی قسمت پر صد افسوس اور یہ مشورہ بھی کہ کبھی یہ تجربہ کرکے دیکھیں، دعائیں دیں گے۔میں اس بات کا قائل ہوں کہ آم زیادہ نہیں کھانے چاہئیں، دو تین کلو کافی ہیں۔ اس سے زیادہ کھانا صحت کیلئے ٹھیک نہیں۔تاہم ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جو احباب آم کی پیٹیاں بھیجتے ہیں وہ اُس میں ’پٹاس‘ کی پُڑیاں اس اہتمام سے کیوں رکھواتے ہیں کہ پہلی نظر میں یہ ’خود کش پیٹی‘ لگنے لگتی ہے۔کہتے ہیں اس سے آم دو تین دنوں میں پک جاتے ہیں حالانکہ آم اور عوام تو کب کے پک چکے ہیں، دونوں کی قسمت بھی ایک جیسی ہے۔دونوں سختیاں برداشت کرتے ہیں،دونوں اندر سے میٹھے ہوتے ہیں، دونوں استعمال کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں، دونوں اپنی مٹھاس سے خود فائدہ نہیں اٹھاسکتے، دونوں کی تاثیر گرم ہے، دونوں کو کوئی اور اٹھا لے جاتاہے،دونوں کسی کا رزق بن جاتے ہیں،دونوں کی منڈی لگتی ہے،دونوں پلپلے ہوجائیں تو کوئی نہیں پوچھتا،دونوں سڑکوں پر،گلیوں میں، بازاروں میں جابجا پائے جاتے ہیں،دونوں کو پولا کیا جاسکتا ہےدونوں کو کاٹا جاسکتا ہے، دونوں کی رنگت پیلی ہوتی ہے،دونوں بولنے سے قاصر ہوتے ہیں اور دونوں صرف ایک موسم میں فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔

تازہ ترین