ہر حکومت آئی ایم ایف سے قرض لیکرملک کو دیوالیہ پن سے نجات دلانے کے دعوے کرتی ہے لیکن معاشی خوشحالی کے یہ خواب آخر کار سراب ثابت ہوتے ہیںاور دائروں کے سفر میں گھوم پھر کر ہم پھر وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے چلنا شروع کرتے ہیں۔حکومت آمدن بڑھانے کیلئے ٹیکس کی شرح بڑھاتی ہے جس سے معیشت پھلنے پھولنے کے بجائے مزید سکٹرتی چلی جاتی ہے۔طویل المدتی منصوبوں کے بجائے فوری اور ہنگامی نوعیت کے نمائشی اور سطحی اقدامات میں وقت ضائع کردیا جاتا ہے۔ہر طرف افراط و تفریط کا معاملہ ہے ۔بارشیں نہیں ہوتیں تو خشک سالی کے سبب حالات خراب ہوجاتے ہیں ،ندی نالوں اور دریائوں میں طغیانی آجائے تو سیلاب سے تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کبھی برقی توانائی کی شدید قلت کا سامنا تھا تو اب بجلی کی فراوانی کے سبب ادائیگیوں کا توازن بگڑ رہا ہے ۔اسی طرح فصلیں کاشت نہ ہوں تو الگ پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں لیکن ریکارڈ پیداوار ہو تو کسان کو اس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا اور نرخ کم ہونے سے زرعی اجناس ضائع ہوجاتی ہیں۔حکومتیں تو ہمیشہ غافل رہی ہیں ،انہیں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اس صورتحال کی ذمہ داری کسی حد تک ہم پر بھی عائد ہوتی ہے۔عالمی سطح پر ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے’’ قدر افزودہ‘‘ یعنی ویلیو ایڈیشن۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اپنی مصنوعات یا خدمات میں کوئی ایسی اضافی خوبی شامل کردیں جس سے وہ بازار میں منفرد ہوجائے۔مثلاً کھجور تو سب فروخت کررہے ہیں،آپ اسے کاٹ کر گٹھلی نکال کر کھویا اور بادام شامل کرکے اس طرح سے پیک کردیں کہ کسی کو بطور تحفہ پیش کی جاسکے تو اس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوجائیگا۔موسم کے مطابق تازہ پھل تو ہر منڈی میں باآسانی مل جاتے ہیں لیکن اگر آپ ان پھلوں کو خشک کرکے فروخت کریں تو ڈرائی فروٹس کی بہت مانگ ہے۔مگر ہمارے ہاں بیشتر لوگ اس فن سے ناواقف ہیںاور نہ ہی متعلقہ حکومتی محکمے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
میں آج آپ کے سامنے صرف آلو کی فصل کو بطور نمونہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔چین کو آلو کی پیداوار میں پوری دنیا پر سبقت حاصل ہے جہاں سالانہ 95 ملین ٹن آلوپیدا ہوتا ہے ۔دوسرے نمبر پر بھارت ہے جہاںآلو کی سالانہ پیداوار 60ملین ٹن ہے۔ لیکن بھارت میں بھی ہماری طرح محض آلو کی پیداوار بڑھانے پر اکتفا کیا جاتا تو عالمی منڈی میں کبھی منفرد مقام حاصل نہ کیا جاسکتا ۔آلو کے چپس جنہیں فرنچ فرائیز کہا جاتا ہے ،یہ خوانچہ فروشوں کے ہاں اور چھوٹی دکانوں پر تو فروخت ہوتے ہی ہیں مگر فاسٹ فوڈ کے بڑے برانڈز اور ہوٹلوں میں یہ بڑی تعداد میں منجمد حالت میں خریدے جاتے ہیں ۔نوے کی دہائی میں جب بھارت کے بڑے شہروں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شاخیں کھلنے لگیں تو فروزن فرنچ فرائیز کی طلب میں اضافہ ہوگیا اور ہر سال ان کی درآمد پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہونے لگا یہاں تک کہ 2010ء میں بھارت مغربی ممالک سے 7863ٹن فروزن فرنچ فرائیز درآمد کررہا تھا۔جب اس حوالے سے سوچ بچار کا آغاز ہوا کہ کیوں نہ فرنچ فرائیز کو مقامی سطح پر تیار کیا جائے۔معلوم ہوا کہ بھارتی کسان جو فصل کاشت کرتے ہیں اس میں نمی اور شوگر لیول زیادہ ہونے کے باعث فرنچ فرائیز بنانے کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔چنانچہ آلو کی پراسیسنگ گریڈ اقسام دریافت کرکے ان کی کاشت کا آغاز کیا گیا۔اس حوالے سے بعد ازاں ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے FL 2027 نامی ورائٹی کاشت کرنے پرگجرات کے کسانوں کے خلاف پانچ کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا اور طویل عدالتی لڑائی کا سامنا کرنا پڑا ،یہ ایک الگ کہانی ہے مگر اس فیصلے نے کسانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔اب صورتحال یہ ہے کہ مقامی سطح پر منجمد آلو کے چپس کی کھپت ایک لاکھ ٹن تک پہنچ چکی ہے ۔نہ صرف مقامی صنعت کیلئے فرنچ فرائیز درآمد نہیں کرنا پڑتے بلکہ فروزن آئٹمز کی برآمد سے بھارت سالانہ اربوں روپے کما رہا ہے۔ابتدائی طور پر ملائیشیا ،انڈونیشیا اور ویت نام جیسے ممالک کو فروزن فرنچ فرائیز بیچنے کا سلسلہ شروع ہوا مگر اب جاپان ،تائیوان ،تھائی لینڈ اور فلپائن سمیت کئی ممالک خریداروں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔بھارت نے 2023-24ء میں ایک لاکھ 35ہزار ٹن منجمد آلو کے چپس فروخت کیے اور 2024-25ء میںایک لاکھ 72ہزار ٹن فروزن فرنچ فرائیز برآمد کیے گئے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھارت کو دنیا کی فرنچ فرائیز سپر پاور کہا جاتا ہے۔
پاکستان بھی آلو کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کے 10بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔ہمارے ہاں آلو کی سالانہ پیداوار 8.2ملین ٹن تک پہنچی تو نرخ گر جانے کے باعث کسانوں کو شدید خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو آلو بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے وہ گھر میں سالن بنانےکیلئے ہی استعمال ہوسکتا ہے ۔اس کی نئی اور جدید اقسام متعارف کروائے جانے کی ضرورت ہے اور پھر کسان ویلیو ایڈیشن کے تصور سے نابلد ہے ۔جو آلو ہمیں منڈی میں 60روپے کلو ملتا ہے وہ کسان سے بمشکل 30روپے کلو خریدا جاتا ہے لیکن اگر کسان فرنچ فرائیز بنائے تو 1.8کلو آلو سے ایک کلو فرنچ فرائیز بنا کرانہیں ایک ہزار روپے کلو پاکستان میں فروخت کرسکتا ہے۔یہ فارمولا آلو کی فصل تک محدود نہیں ،اس کا اطلاق سب اجناس اور خدمات پر کیا جاسکتا ہے۔گندم آڑھتیوں کو اونے پونے دام فروخت کرنے کے بجائے دلیہ اور خالص چکی کا آٹا بنا کر بیچا جائے تو صورتحال یکسر مختلف ہوسکتی ہے۔یقیناً چھوٹے کسانوں کیلئے یہ کام مشکل ہوگا مگر دو ،تین یا چار کسان مل کر اس طرح کا کاروبار شروع کرسکتے ہیں۔یوں ویلیو ایڈیشن کے ذریعے نہ صرف مقامی صنعت کی ضرورت پوری کرکے درآمدات کم کی جاسکتی ہیں بلکہ برآمدات میں اضافہ کرکے کثیر زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔اگر معاشی خوشحالی کی طرف جانا ہے تو یہی راستہ اختیار کرنا ہوگا ورنہ محض بجلی اور گیس پر نت نئے ٹیکس لگانے اور پیٹرولیم لیوی بڑھانے سے یہ ملک نہیں چلایا جاسکے گا۔