• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت سے ایک بہت بڑی خبر سامنے آئی ہے۔ ایک تاریخی فیصلے میں، بمبئی ہائی کورٹ نے بھارت کے مہلک ترین دہشت گرد حملوں میں سے ایک 2006 ء کےبمبئی ٹرین بم دھماکوں میں سزا یافتہ تمام 12 افراد کوباعزت بری کر دیا ہے۔نو سال قبل، 2015 میں، ان میں سے پانچ افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ باقی سات کو عمر قید دی گئی تھی۔ اگرچہ مہاراشٹرا حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن بمبئی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ مودی سرکار کے لئے بہت بڑا دھچکا اوررسوائی و جگ ہنسائی کا باعث بن رہاہے۔اس عدالتی فیصلے سے نہ صرف پاکستان کے خلاف بیانیہ زمین بوس ہوگیا ہے بلکہ بھارتی استغاثہ کے نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔ انہیں جواب دینا ہوگا کہ اگر یہ تمام افراد بے گناہ تھے، تو انہوں نے 18 سال جیل میں کیوں گزارے؟واضح رہے کہ ان میں سے ایک شخص، کمال انصاری، جسے ٹرائل کورٹ کے جج نے سزائے موت سنائی تھی، 2021 میں حراست کے دوران انتقال کر گیا اور اب اسے بھی بری قرار دیا گیا ہے۔قانونی پہلوؤں پر بات کرنے سے پہلے، ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دراصل اس دن ہوا کیا تھا۔یہ 11 جولائی 2006 کا دن تھا، شام کے 6 بج کر 23منٹ کا وقت۔ بلاشبہ یہ ممبئی میں رش کے اوقات میں شمار ہوتا ہے۔ شہر کی لائف لائن ،لوکل ریل گاڑیاں ، مسافروں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھیں۔ لوگ ایک طویل دن گزار کر گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے، کچھ باتوں میں مصروف، کچھ اونگھتے ہوئے، اور کچھ اپنی سوچوں میں گم۔ اچانک ایک مسافر ٹرین کے فرسٹ کلاس ڈبے میں زور دار دھماکہ ہوا۔ اس سے پہلے کہ لوگ سمجھ پاتے کہ ہوا کیا ہے،یکے بعد دیگرے مزید چھ بم دھماکے ہوئے۔ شام6:23سے6:29 کے درمیان، سات بم دھماکوں نے ممبئی کے ریلوے نیٹ ورک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان دھماکوں میں 187 افراد ہلاک اور 800 سے زائد زخمی ہوئے۔بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں نے حسب روایت اس حملے کا الزام پاکستان کے حمایت یافتہ مسلمان شدت پسندوں پر لگایا، جسے پاکستان حکومت نے مسترد کر دیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ لشکرِ طیبہ کے رہنما اعظم چیمہ المعروف ’’بابا جی‘‘ اس سازش کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ کہا گیا کہ ملزمان میں سے ایک چھ پاکستانیوں کو ممبئی لایا اور باندرہ میں ایک خفیہ نشست کے دوران دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی ہوئی۔ انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے تحقیقات شروع کیں اور چند ہفتوں میں 13 افراد کو گرفتار کر لیا، ان پر ایک بڑی سازش میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ ان کے خلاف مہاراشٹرا کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (MACOCA) کے تحت چارج شیٹ داخل کی گئی۔

بعد میں مختلف بھارتی ایجنسیوں کی رپورٹس ایک دوسرے سے متضاد نکلیں۔ بمبئی کرائم برانچ اور دہلی پولیس دونوں نے دعویٰ کیا کہ اصل مجرم انڈین مجاہدین اور اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI) کے کارکنان تھے۔خیر، جب مقدمے کی سماعت شروع ہوئی، تو خصوصی سرکاری وکیل راجہ ٹھاکرے نے عدالت کو بتایا کہ یہ دہشت گرد پاکستان میں تربیت یافتہ تھے اور انہوں نے ملزمان کو موت کے سوداگر قرار دیا۔ 2015 میں ایک طویل عدالتی عمل کے بعد، خصوصی عدالت کے جج وائی ڈی شندے نے 12 افراد کو مجرم قرار دیا۔ ان میں سے پانچ کو سزائے موت جبکہ سات کو عمر قید سنائی گئی۔ یہ تمام ملزمان تب سے جیل میں تھے۔ ان میں سے ایک، کمال انصاری، جو سزائے موت پا چکا تھا، 2021 میں کووڈ کے باعث جیل میں انتقال کر گیا۔

اس فیصلے کے خلاف اپیلیں بمبئی ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں۔ جولائی 2024 میں ہائی کورٹ نے دو رکنی بینچ تشکیل دیا۔ جسٹس انیل کلور اور جسٹس شیام چندک نے اگلے چھ ماہ میں 75 سے زائد بار اس مقدمہ کی سماعت کے دوران 92 استغاثہ کے گواہوں اورملزموں کے وکلا کی طرف سے پیش کئے 50 سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کیے۔ پیر کو جاری کردہ 667 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے تمام ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار دے کر ان کی فوری رہائی کا حکم دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ الزامات کو معقول شک سے بالا تر ثابت کرنے میں ’’بالکل ناکام‘‘ رہا۔ عدالت نے کہا کہ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ملزمان نے یہ جرم کیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ اصل مجرموں کو سزا دینا جرائم کی روک تھام اور قانون کی بالادستی کے لیے ناگزیر ہے، مگر کسی جھوٹے فسانے سے یہ ظاہر کرنا کہ مقدمہ کی گتھی سلجھ گئی ہے، عوام کو محض فریب دینے کے مترادف ہے۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ شناختی پریڈ درست انداز میں نہیں ہوئی، گواہان ناقابل اعتبار ہیں، اور MACOCA کا نفاذ بغیر سوچے سمجھے کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر واقعی ملزمان کا اعظم چیمہ اور لشکرِ طیبہ سے تعلق تھا تو CDR (کال ڈیٹیل ریکارڈز) کے ذریعے یہ ثابت کیا جا سکتا تھا، مگر ایسی کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی۔

مختصراً، یہ عدالتی فیصلہ بھارتی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا اور سفارتی و سیاسی اعتبار سے بہت بڑی ناکامی ہے۔بمبئی ریل گاڑیوں میں بم دھماکوں سے پہلگام میں سیاحوں پر حملے تک بھارتی حکومت دہشتگردی کی ہر واردات پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتی رہی ہے ۔اس بات پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ شواہد فراہم کئے جانے کے باوجود حکومت پاکستان ان واقعات میں ملوث کالعدم جماعتوں کے افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرپائی لیکن اب خود بھارتی عدالتوں نے ان ثبوتوں کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہوئے بھارتی حکومت کے الزامات کو اٹھا کر کوڑا دان میں پھینک دیا ہے تو پاکستانی عدالتوں سے گلہ کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔بمبئی ہائیکورٹ کے اس فیصلے سے نہ صرف مودی سرکار کو بھارت میں خفت اُٹھانا پڑ رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارتی موقف کی حقیقت طشت ازبام ہو گئی ہے۔

تازہ ترین