• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ 9مئی، وطنی سیاسی انحطاط کا نتیجہ، ملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب، سیاسی جماعت کے ہاتھوں عسکری تنصیبات کی بے حُرمتی ناقابل فہم ہے۔ واقعہ جہاں عمران خان کی عملی سیاست کو عمیق دلدل میں دھکیل گیا وہاں پاکستان کی باقی سیاسی جماعتیں، ادارے بھی بوکھلا گئے، سانحہ سب کو اپنے رنگ میں رنگ گیا۔ 2014ء میں نواز شریف حکومت کی اُکھاڑ پچھاڑ شروع ہوئی تو وطنی تاریخ میں پہلی دفعہ چند ماہ کی قائم جمہوری حکومت (جو نہ RTS نہ ہی بوجہ فارم 47) کو آڑے ہاتھوں لیا گیا تو ساتھ ہی وطنی نظم ونسق، ایگزیکٹو، عدالتی نظام، میڈیا دھونس دھاندلی سے ہتھیا لیا گیا۔ وزیراعظم اپنی ہی حکومت میں بے بس اور بے اثر نظر آئے۔ 2014 ء ڈرامہ نے بالآخر عمران خان کو مسندِ اقتدار پر بٹھا کر دم لیا ۔

22 مارچ 2018ء کو میرا کالم " کوئی تو ہے جو نظام وطن چلا رہا ہے ’’چھپا، آج کے تناظر میں چند فقرے دوبارہ دُہرانے کی جسارت،‘‘ بظاہر مسلم لیگ ن کی حکومت… نواز شریف اور خاندان کڑے مقدمات میں اسطرح ملوث کہ آرٹیکل 10(A) ابدی نیند میں، اگرچہ مقدمات منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیںفقط نگران حکومت کا انتظار ہے۔ سپریم کورٹ کی مصروفیات دیدنی، عدالتی ہاتھ انتظامیہ کو دبوچنے، سدھارنے میں کامیاب، اب سیاست کو ٹھیک کرنے کا عندیہ دے چکا۔ آنیوالے دنوں میں لیگی سیاستدانوں کو مثال بنانا ہے۔ ن لیگ سے وابستہ لوگوں کی نا اہلیاں آئے دن متوقع، پیغام واضح، ’’ ن لیگ چھوڑنی ہوگی یا نااہلی سمیٹنی ہوگی‘‘۔ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘، الیکشن دھاندلی، پاناما کیس، نواز شریف نااہلی، بلوچستان حکومت کی زمین بوسی، نواز شریف کی بحیثیت صدر معزولی، سینٹ چیئرمین کا دن دیہاڑے ’’صاف شفاف‘‘ انتخاب، عامر لیاقت جیسوں کی تحریک انصاف میں شمولیت خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ کسی ایک عمل یا دیگر درجنوں کار ہائے نمایاں میں زرداری یا عمران کا کوئی عمل دخل اور نہ ہی کوئی قصور، پچھلے چند ماہ سے دونوں نے اپنے تئیں، ’’بوائز‘‘ کے مجبور کرنے پر وارداتیں ڈالیں، وقتی فائدہ برطرف، اپنی اپنی سیاست ڈبو چکے۔ یہ بات اپنی جگہ کہ پنجاب میں ن لیگ کا مقابلہ کرنیوالے اور کراچی میں MQMکی افراط و تفریط سے فائدہ اٹھانے کیلئے، پس پردہ قوتوں نے عمران خان کو اولین فوقیت دے رکھی ہے … 2023 ء یا اس سے ایک آدھ سال پہلے اقتدار خودبخود نواز شریف کے قدموں میں ہوگا ’’( 22مارچ 2018ء )۔ 7سال 4ماہ پہلے لکھے کالم میں نواز شریف اور ن لیگ کی جگہ عمران خان اور PTI لکھ کر آج سے موازنہ کریں اور عش عش کر اُٹھیں۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی نواز شریف ن لیگ کیخلاف جو مجرمانہ شراکت داری رہی اس پر معافی مانگے بغیر عمران خان کو آگے بڑھنے کی اجازت کیوں اور کیسے ملے گی؟

سانحہ 9 مئی کا دھبہ تاقیامت نہ دُھل پائیگا، چاہے کوئی سو سو حج کرے۔ عمرا ن خان کا کہنا کہ مجھے چونکہ گرفتار رینجرز نے کیا ، میرے ماننے چاہنے والوں کا ردِعمل بھی انکے خلاف تھا ، عقل کے کسی پیمانے پر فٹ نہیں بیٹھتا ۔ بھٹو (1977ء) اور نواز شریف ( 1999ء) کو 3سٹار جرنیل بنفس نفیس وزیراعظم ہاؤس سے عملاً گھسیٹ کر لے گئے ۔ نصرت بھٹو ، بینظیر بھٹو ، کلثوم نواز اور سپورٹرز نے قدم بہ قدم ساتھ دیا ، مجال ہے کسی نے بھی فوجی تنصیبات کا رُخ کیا ہو ۔ سانحہ 9مئی جہاں PTI کی اخلاقی ابتری ، سیاسی بے سمتی اور حسن دروغ گوئی کو مستحکم کر گیا ہے وہاں اداروں کو وطنی نظام ، آئین و انصاف ، قانون کو مزید اپنے قبضہ استبداد ایسے ہتھیانا کہ 25 کروڑ عوام ، PTI بشمول سیاسی جماعتیں ، ادارے سب کے سب ایک بند گلی میں ایسے بند کہ وطنی سیاست عمران خان کی مُٹھی میں جبکہ مطلق طاقت ادارے کے پاس ، آج دونوں کو اکٹھا رکھنے کے سارے راستہ ایسے مسدود کہ وطنی مستقبل مخدوش ہو چکا ہے ۔ دو دن قبل تحریک انصاف کے تین درجن سے زیادہ نمایاں متعلقین محمود الرشید ، یاسمین راشد ، اعجاز چوہدری ، عمر سرفراز چیمہ ، احمد خان بھچر وغیرہ کو دس دس سال قید ، وطنی تاریخ کے بھیانک دنوں میں ایک اضافہ ہی سمجھا جائے ۔ پانچ ناموں سے میرا ذاتی تعلق برطرف ، گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ تو کسی کی پلاننگ میں اورنہ ہی تنصیبات کو نقصان پہنچانے میں ملوث تھا ۔ سزائیں اسکے علاوہ کچھ نہیں کہ ’’جب یہ لاٹھی میری ہے تو بھینس کیوں تمہاری ہے‘‘ ۔ پوچھنا بنتا ہے کہ سانحہ 9 مئی کی سنگینی کا جو احساس مجھے ، کیا ’’کرتا دھرتا‘‘ اصحاب کو بھی تھا ؟ وگرنہ سب سے پہلے مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچاتے کہ سبق ازبر رہتا ۔ درجنوں کے حساب سے معافیوں پر رفعتیں نہ بانٹتے ، عدم استحکام پارٹی ، پرویز خٹک پیپلز پارٹی اور انواع اقسام کو نہ سمیٹتے بلکہ اپنی ترجیحات پہچانتے ۔ مقتدرہ کی بوجوہ غلط ملط ترجیحات عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا جبکہ سانحہ کی تازگی بھی مرجھا گئی ۔ کاش ایسا کام کرنیوالوں کا سیاسی آڈٹ ہو جاتا تو ایسوں کی بہت ساری غلطیاں بھی آج سامنے ہوتیںاور ادارہ سبق سیکھتا۔

حالیہ سزاؤں سے بھی مخلوق خدا میں عمران خان کیلئے ہمدردی بڑھی ہے۔ میڈیا میں سزاؤں کی حمایت کرنیوالے سزاؤں کا موثر دفاع کرنے سے قاصر ہیں ۔ درست کہ عمران خان کی احتجاجی تحریک نے بن کھلے مرجھانا ہے کہ ناکام احتجاجی تحریکوں کا موصوف کو بے حساب تجربہ ہے ، یقینا ًعمران خان کی دلچسپی احتجاجی تحریک کی کامیابی سے زیادہ اپنی ذات کو میڈیا میں موجود رکھنا ہے، پچھلے تین سال سے میڈیا موجودگی میں بے مثال کامیابی رہی ۔ اگر عمران خان کا یہی میڈیا کنٹرول برقرار رہا تو اگلے کئی سال کی جیل بھی عمران خان کے وارے میں ہے۔ شاید غیرسیاسی لوگوں کو اس سے سروکار نہ ہو۔ میرا فکر فاقہ ! ریاست ، عمران خان ، مجموعہ سیاسی جماعتیں ، ادارے ، 25کروڑ عوام پر کڑا وقت تنا ہے جو وطنی سیاسی عدم استحکام سے براہِ راست جُڑا ہے اسکے ازالہ کا کوئی ساماں دور دور تک موجود نہیں ہے ۔ جو کچھ بیت رہی ہے ، ہم سب کے اعمال کا ہی تو نتیجہ ہے ۔ چنانچہ کسی سے کوئی شکایت بنتی نہیں ۔ ذہن نشین کر لیں ، نواز شریف اور پارٹی پر 2014ء تا 2022ء میں جو بھی بیتی آج من و عن وہی کچھ عمران خان پر بیت رہی ہے ۔ اے اہل اقتدار، کیسے مان لوں کہ مملکت میں موجود ’’ باری کا بخار‘‘ آپکو نہیں چڑھے گا ۔ خاطر جمع! آپ ہی کی طرف تو بڑھ رہا ہے ، ایک ایک اَنگ لپیٹنے کو ہے۔ بالآخر پوری مملکت کو اپنی لپیٹ میں لپیٹے گا ۔

تازہ ترین