• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کے مسئلے سے جس طرح نپٹنے کی کوشش کی گئی ہے، اس نے حالات کو مزید پیچیدہ اور نازک بنا دیا ہے۔ ضروری ہے کہ ایک مربوط قومی کوشش کے ذریعے پچھلے برسوں کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے۔ مسائل کا حل حکومت کرسکتی ہے اور دیگر سیاسی قیادت معاونت، مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں بنیادی جمہوری تقاضا یعنی عوام کے منصفانہ اور شفاف ووٹ سے منتخب ہونے کی شرائط پوری نہیں کرتیں۔یہی وجہ ہے کہ ان حکومتوں کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں جو بلوچستان جیسے حساس اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کیلئے درکار ہے۔

اس خلا کو پُر کرنے کیلئے انہیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی ہے، جو ماضی میں بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ اس مسئلے کو صحیح انداز میں نہیں سنبھال سکی۔ معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنا دفاعی اداروں کا کام ہے اورنہ طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے۔

اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھاجائے۔ ان زخموں پر مرہم لگانا ہوگاجو اپنوں اور غیروں نے دیے ہیں۔تاریخی طور پر، خان آف قلات کی وساطت سے بلوچستان نے آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اُس وقت کے تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولہ کے تحت کیا گیا جس میں ریاستوں کو بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا اختیار دیا گیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت نے اس فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر جبراً قبضہ کیا اور کشمیر پر قبضے کے بعد آج تک قتل و غارتگری جاری ہے۔ بلوچستان کی تاریخی حیثیت ہر لحاظ سے واضح ہےچاہے وہ افغانستان کے ساتھ قدیمی تعلقات ہوں، برطانوی راج سے آزادی ہو یا پھر گوادَر جیسے ساحلی علاقے کا سلطنتِ عمان سے ریاستی معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کے باسیوں کے حقوق کا ہے۔بلوچ، پشتون، ہزارہ، اقلیتیں اور دوسرے صوبوں سے آ کر بسنے والے لوگ سب کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد دیگر صوبوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان کے عوام افسوس کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ 1970ء کی دہائی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی بنا پر مہاجرین کی بڑی تعداد کو صوبہ چھوڑنا پڑا، جس سے تعلیمی نظام شدید متاثر ہوا اور صوبہ طویل عرصے تک ماہر افرادی قوت کی تیاری میں پیچھے رہ گیا۔ آج بھی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مند اور مزدوریہاں اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کی سلامتی اور فلاح نہ صرف انسانی بنیادوں پر ضروری ہے بلکہ بلوچستان کی ترقی کیلئے بھی لازم ہے۔

بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ میرٹ کی پامالی ہے۔ اسمبلیاں میرٹ پر منتخب ہوتی ہیں اور نہ ہی نوکریوں و تعلیمی اداروں میں میرٹ کا نظام موجود ہے۔ سرداری نظام صوبے کے باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ عوام کو اس غلامی سے نجات دلانا ضروری ہے۔ عام آدمی سرداروں کے خلاف الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ حقیقی حکمرانی اور فیصلوں کا اختیار سرداروں کے پاس ہے۔سو ل انتظامیہ اور فوج میں ملازمتیں اور تعلیمی مواقع بھی سرداروں اور بااثر طبقات کو ہی ملتے ہیں۔ یہی نظام کاروبار اور ٹھیکوں میں بھی کام آتا ہے، یہاں تک کہ اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کام بھی انہی تعلقات کی بنیاد پر فروغ پاتے ہیں۔ سرداروں اور اشرافیہ کا یہ اتحاد بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔یہی میرٹ کی پامالی سرکاری و نجی شعبے کے ناکامیوں کی جڑ ہے۔ جو بھی رقم وفاق یا این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے آتی ہے، وہ ضائع ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 100ڈیمز کا منصوبہ جو مکمل ہونے سے پہلے ہی سیلاب میں بہہ گیا۔

بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور کاروبار کے منصفانہ مواقع دینے سے کئی مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان مایوس ہیں اور یہ مایوسی بیرونی پروپیگنڈے کو کامیاب بناتی ہے، جس کا مقصد علیحدگی پسند ذہنیت پیدا کرنا ہے۔ ہمیں پہلے اپنی غلطیوں کو دیکھنا چاہیے۔چند مثالیں واضح کریں گی کہ بلوچستان کے عام آدمی کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ گوادر سی پیک کا مرکز ہے، مگر مقامی آبادی حکومتی توجہ سے محروم ہے۔ غریب ماہی گیر غیر قانونی جالوں سے تنگ ہیں جو سمندر کی حیاتیات کو ختم کر رہے ہیں۔ ایرانی سرحد سے ضروری اشیاء کی نقل و حرکت پر عام لوگوں کو روکا جاتا ہے جبکہ اسمگلرز آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ چمن بارڈر پر بھی یہی صورتحال ہے۔ترقی کے اعتبار سے بلوچستان پیچھے ہے۔ سی پیک کے ذریعے بلوچستان کی سڑکوں، صنعت، اور ہنر سازی میں سرمایہ کاری اور چین کے منصوبوں کو بلوچستان میں لانے میں ناکام رہے، نہ ہی ہم نے سی پیک اسکالرشپ کیلئے بلوچستان کے نوجوانوں کو تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبے رُکے ہوئے ہیں یا تاخیر کا شکار ہیں۔ اگر صنعتی زونز پر توجہ دی جاتی، تو روزگار اور معیشت میں بہتری آتی۔

بلوچستان کے آئینی حقوق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ان حقوق کیلئے جائز جدوجہد کو طاقت سے کچلنا بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اجتماعی سزا اورcollateral damage سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

بلوچستان کا ایک اور آئینی حق گیس کی فراہمی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت یہ حق محفوظ ہے۔ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے سوئی سے 1950ء میں گیس دریافت ہوئی مگر آج تک بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو گیس نہیں ملی۔ جس سے صنعتی ترقی بھی نہیں ہورہی۔ سخت موسم والے علاقوں جیسے ژوب، زیارت، اور قلات کے لوگ گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے قیمتی جنگلات کاٹنے پر مجبور ہیں۔

جماعت اسلامی بلوچستان کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ ہم بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کیلئے 25جولائی 2025ء کو کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہم قومی و صوبائی قیادت سے رابطے میں ہیں تاکہ امن کا روڈ میپ طے کیا جا سکے۔ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے کچھ عملی منصوبے بھی شروع کریں گے۔ ان میں سے ایک 'بنو قابل پروگرام ہے، جسے ہم بلوچستان میں توسیع دے رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی مہارت دی جا سکے اور انہیں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔جماعت اسلامی نہ صرف ایک قومی جماعت ہے بلکہ اُمتِ مسلمہ اور انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے جڑی ہوئی تحریک ہے، جو ہر قسم کی تقسیم سے بالاتر ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہی اتحاد اور سب کیلئے عدل، خطے میں پائیدار امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

'اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے…

تازہ ترین