ایک وقت ہوتا ہے جب انسان سوچنے یا حرکت کرنے سے قاصراور روحانی طور پر مفلوج ہوجاتا ہے ۔ ہمارے ملک، جہاں ہر چیز کو خود کار ریگولیٹر پر لگا دیا گیا ہے، کی تاریخ میں یہی وہ وقت ہے جب حرکت کا تاثر ارزاں کیا جاتا ہے ۔ لیکن اس بے جان اوربے گام حرکت کو پہلے سے طے شدہ بندوبست من پسند طریق پر متحرک رکھتا ہے۔
حالیہ دنوں سنائی گئی سزائوں سے ریاستی اداروں کا فکری اور اخلاقی دیوالیہ پن جھلکتا ہے ، خاص طور پر عدلیہ کا جو دیگر سے کہیںزیادہ متاثر دکھائی دیتی ہے ۔ آئین اور قانون کے مطابق کام کرنے، جیسا کہ عدلیہ کے طے شدہ اصول ہیں ، کی بجائے ان سزائوں کے پیچھے کچھ افراد کو سزا دینے کی ضرورت کارفرما ہے، محض اسلئے کہ وہ ایک مخصوص موقف کے حامی ہیں ۔
حالیہ فیصلے استغاثہ کی اس شہادت کی بنیاد پر سنائے گئے جو اس کے دو گواہوں نے پیش کی جو ، جیسا کہ ظاہر کیا گیا ، اس کمرے میں موجود تھے جہاں مبینہ طور پر یہ سازش قرار پائی ( ایک گواہ صوفے کے پیچھے ، جب کہ دوسرا میز کے نیچے چھپا ہوا تھا)۔ ایسا مضحکہ خیز 'ثبوت آزادعدلیہ کے سامنے ایک پَل نہیں ٹھہر سکتا۔لیکن یہاں انصاف کی عدالتوں کو خوابناک حد تک مستند اور آزاد بنایا جاچکا ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اس 'آزادی ' کا رچائو بڑھتا جارہاہے جس کی حکومت کے وزرا وکالت کرتے ہیں اور جسے وہ ایسا ہائبرڈ نظام قرار دیتے ہیں جس میں اتھارٹی آئین کی کتاب کی بجائے انکے ہاتھ میں ہے جن کااس بندوبست سے مفاد جڑا ہوا ہے ۔ انصاف اس عمل کا مرکزی شکار ہے ۔
ایسے نظام کا دورانیہ عام طور پر بہت مختصر ہوتا ہے کیوںکہ ذاتی مفاد پر مبنی بندوبست اس آئینی نظام کا متبادل نہیں ہو سکتا جو عوام اور ریاست کے مفاد کیلئے صدیوں کی ماہرانہ کاوش سے وجود میں آیا ہو۔ انصاف اصل بنیاد ہے جس پر ترقی یافتہ اور فلاحی معاشرہ پروان چڑھتا ہے ۔ جس دوران اسکی بہتری اور اٹھان کیلئے انتھک کوششیںکی جاتی ہیں ، کوئی بھی اس ڈھانچے کی بنیاد اور ساخت کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ عوام کی اجتماعی دانش سے استفادہ کرنے اور ماضی کے تجربات سے سیکھنے کی بجائے جب کچھ افراد کی منشا سوئے منزل کا کھرا ناپنے لگے تویہ حرکت پلٹ کر ایسے وار کرتی جیسے پھسلتا ہوا برفانی تودہ راہ میں آنے والی ہر چیز کو روند کر رکھ دیتاہے ۔ پھر اچھے برے، اور کارآمد اور ناکارہ کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا ۔ بپھرے ہوئے طوفان کی راہ میں آنے والی ہر چیز ملیا میٹ ہوجاتی ہے۔ ہمیں ایسی صورت حال کا تواتر سے سامنارہا ہے ، پھر بھی ہم ایسے تجربات سے کچھ سیکھنے سے انکار ی ہیں ۔ اس کی بجائے ہم ایسی غلطیاں دہرانےپر کمر بستہ ہیں ۔
جمہوریت کے فروغ کی مخلصانہ کوششیں ، جنھیں حکومت وقت کا تختہ الٹ کر مارشل لاکا نفاذ، بنیادی جمہوریتوں کا نظام، دھاندلی زدہ کٹھ پتلی حکومت کا قیام ، اور اب جسے ہائبرڈ نظام کہا جاتا ہے...ہمارے قومی جسد میں بہت سے تجربات نے چھید کر دیے جو اب اتنے کھلے ہو چکے ہیں کہ خدشہ ہے کہ وہ پورے نظام کو ہی نہ نگل جائیں ۔ درحقیقت اس بندوبست کو کسی طور پر کوئی نظام نہیں کہا جاسکتا۔یہ ایک ٹولے کی مفادپرستی کاکھیل ہےجس نے ملک کی سمت اپنی مرضی سے اس طرح طے کی ہے تاکہ انکے اقتدار اور دولت کے خزانے دو چند ہوتے رہیں ۔
اس نہج تک پہنچنے پر ہم پیچیدہ بھول بھلیوں میں کھو چکے ہیں جہاں اس ٹکسال کردہ نظام کا جو کچھ بھی باقی ہے ، اسے اسی ٹولے کی مفاد پرست اشرافیہ نے یرغمال بنا رکھا ہے ۔ اس اشرافیہ کا مسلسل اصرار ہے کہ وہ درست ہیں ، اور وہ ہر صورت اسی گام پر چلیں گے ۔ اس ناقص ماڈل کے ساتھ ان کا کچھ ایسا عشق ہے کہ ہر مرتبہ، جیسا کہ اس بار، انھیں امید ہوتی ہےکہ یہ ماضی سے مختلف نتائج دے گا۔ ایسا کرتے ہوئے ریاست کے اداروں کی صلاحیت اور کارکردگی گرتے گرتے غیر فعال ہو چکی ہے ۔ عدالتوں کا حالیہ فیصلہ ایسی ہی سنگین گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
ہم اپنے پائوں پر کلہاڑا مارتے ہوئے طویل عرصے سے دکھاوے کے گھن چکر میں ہیں۔ قوم کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب لوگوں کو سر جوڑ کر، بناوٹی لباس اتار کر حقیقت کا پوری دیانت داری اورمعروضی سوچ کے ساتھ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی موجودہ دور کی ضرورت ہے۔ کمزور بنیادوں پر سزائیں سنانا پہلے سے تقسیم شدہ قوم کو مزید تقسیم کر رہا ہے۔ تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ تلوار کے زور سے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسے استدلال، منطق اور ہمدردی کے ذریعے قائم کیا جانا ہے۔ یہ اس وقت قائم ہو گا جب لوگوں کو اعتماد ہو کہ ان کے ساتھ ملک کے قانون کے مطابق انصاف ہو گا۔ اس وقت ہم اس سے بہت دور ہیں اور مزید دور ہوتے جا رہے ہیں۔
ہم تھک چکے ہیں۔ اگر ہم موجودہ راستے پر گامزن رہے تو ہم تھکن اور مایوسی کی طرف بڑھ رہے ہوں گے۔ یہ تب ہوتا ہے جب صحیح اور غلط کی تمیز بالکل ختم ہو جاتی ہے اور انسان اسکے نتائج سے بے خبر ہو کر کچھ کر گزرتا ہے۔ ہم اس مرحلے سے زیادہ دور نہیں۔موجودہ کھائی میں چھلانگ لگانا شاید مشکل نہ تھا، لیکن بازیافت کا سفر آسان نہ ہو گا۔ اس کوشش میں ہمارا سامنا مفاد پرست اشرافیہ سے ہے جو اس ملک کو کنگال کرنے اور اسکے ہاتھ میں کشکول تھمانے کی ذمہ دار ہے۔ یہ ایک افسوس ناک صورت حال ہے جس پران تمام لوگوں کی طرف سے اجتماعی ردعمل آنا چاہئے جو اپنے گھر کی فکر کرتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اور جہاںانھیں اب بھی بہتر مستقبل کی امید ہے۔ لیکن یہ منزل کسی پکے ہوئے پھل کی طرح جھولی میں نہیں گر ے گی، اس کیلئے جدوجہد کا علم اٹھانا ہوگا۔
انتقام مزید تقسیم کا سبب بنے گا۔ انسانوں کو فرشتوں یا شیاطین کی صفوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ ہم انسان ہیں، اپنے طرز عمل میں غلط بھی ہو سکتے ہیں اور درست بھی۔ ہمیں اپنے نقطہ نظر میں لچکدار بننا چاہیے، بغیر کسی تعصب کے یہ دیکھنے کیلئے تیار ہونا چاہیے کہ ہم اس موڑ پر کیوں پہنچے ہیں اور ہم اس دلدل سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ یہاں موڑ پر ہم مسلسل نہیں رہ سکتے ہیں ، یہاں سے نکلنا لازم ہے ۔
پارسائی پر کسی کا اجارہ نہیں۔ ہم سب صحیح ہو سکتے ہیں اور ہم سب غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ عظمت حقیقت کو بلا ردو کد قبول کرنے میں ہے۔ ہم نے طویل عرصے سے جنگی لباس پہن رکھا ہے، اسے اتار پھینکنا چاہئے۔ دوٹوک رویےہمیشہ درست نہیں ہوتے۔ زندگی کے بہت سے رنگ اور خدوخال ہیں ۔ عوام کو کچھ بھی پسند ہوسکتا ہے ۔ ماضی پرستی نے ہمیں تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔ سچائی اورمفاہمت مستقبل کا راستہ ہموار کرسکتی ہیں، دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا وقت آ گیا ہے ۔
ماضی کی ہماری بے حیائی نے ہمیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ سچائی اور مفاہمت ایک ایسے مستقبل کی راہ ہموار کر سکتی ہے جو سب کے فائدے میں ہو۔ یہ وقت اکٹھے ہونے کا ہے۔
(کالم نویس پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)