گاہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سلطانی جمہور کا زمانہ لد گیا، نقش کہن کی طرح مٹتی جارہی جمہوریت متروک ہوچکی اور اب مقبولیت ہی قبولیت کا معیار ہوگی۔ پاپولزم جسے اردو میں عوامیت پسندی کے بجائے بھیڑ چال یا اکثریت کی پرستش کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسکی طوفانی لہریں سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا لے جائیں گی۔ یہ سلسلہ عمران خان، نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ تک محدود نہیں بلکہ اس طرز سیاست کے جواب میں بھی ویسی ہی حکمت عملی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک اور پاپولسٹ رہنما سے شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جسے بجا طور پر امریکہ کا ذوالفقار علی بھٹو قرار دیا جا رہا ہے۔ روایت شکن نوجوان زہران ممدانی کی آمد سے امریکی سیاست کے منجمد سمندر میں بھونچال آگیا ہے۔ یک ایسا نام جو کل تک حاشیے پر تھا، آج پورے امریکہ میں شہ سرخیوں میں ہے۔ نہ خاندانی سیاسی پس منظر، نہ مال و دولت کی ریل پیل، نہ صہیونی لابی کی پشت پناہی، مگر پھر بھی وہ آیا، اُس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔یہ صرف ایک امیدوار کی کامیابی کی نہیں، بلکہ اُس بیانیے کی فتح ہے جس پر کل تک بات کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ کوئی امریکی سیاستدان فلسطین کے حق میں آواز اُٹھائے، معذرت خواہانہ طرزعمل اختیار کئے بغیر اسرائیلی ظلم و جبر کی مذمت کرے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صہیونی لابی کو چیلنج کرے اور پھر انتخابات جیت جائے، یہ کل تک تو محض ایک خواب ہی محسوس ہوتا تھا مگر آج یہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ کوئی انہونی نہ ہوئی تو اس برس زہران ممدانی نیویارک کے نئے میئر ہونگے۔ ممدانی نے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور اسرائیلی لابی کو اکیلے شکست دیدی ہے۔ زہران ممدانی نے پرائمری الیکشن جیت لیا ہے اور وہ نیویارک کے اگلے میئر بننے جا رہے ہیں۔ یوں نیویارک شہر کا سیاسی نقشہ تبدیل ہو رہا ہے۔ پہلی بار ایک مسلمان اور جنوبی ایشیائی میئر سامنے آ رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ممدانی کون ہے ؟کہاں سے اور کیسے نمودار ہوا؟ اسکے جیتنے کے امکانات کیا ہیں؟ اور کیا وہ واقعی اسرائیل مخالف ہے یا پھر اپنے حصے کے بیوقوف جمع کرنیوالا ایک اور پاپولسٹ؟امریکہ میں اسرائیلی لابی اتنی طاقتور رہی ہے کہ اگر ڈیموکریٹک یا ریپبلکن پارٹی کا کوئی بھی امیدوار یہودیوں کو ناراض کرتا تو اس کیلئے اگلا الیکشن جیتنا تقریباً ناممکن ہو جاتا۔ لیکن اب ہم ایک معجزہ رونما ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ایک نوجوان، جو اسرائیلی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کرتا ہے اور فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے، اس نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ممدانی، جو ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدوار اور اس دوڑ کے ممکنہ فاتح سمجھے جا رہے ہیں، وہ بارہا اس عزم کا واضح اظہار کرچکے ہیں کہ ان کے میئر منتخب ہونے کے بعد جب بھی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نیویارک آئے ،انہیں گرفتار کرلیا جائیگا کیونکہ ان پر جنگی جرائم کے الزامات کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت کا وارنٹ موجود ہے۔ وہ فلسطینیوں کا قاتل ہے ،اس نے انسانی حقوق کو پامال کیا ہے۔اسرائیل جسے امریکہ میں مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہے، ممدانی نے اسے بے نقاب کیا اور اسکے نتیجے میں عوامی تائید و حمایت حاصل کی۔ایک پوڈکاسٹ انٹرویو میں جب ممدانی سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں’’گلوبلائز دی انتفاضہ‘‘ (یعنی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کو دنیا بھر میں پھیلانے) جیسے نعرے سے پریشانی محسوس ہوتی ہے تو انہوں نے اس کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔ جس پر ممدانی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، بعدازاں انہوں نے وضاحت کی کہ وہ اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں، نہ کہ یہودیوں یا یہودی شناخت کی۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچے؟ کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ ممدانی کہیں سے اچانک نمودار ہوئے، تو یہ کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں ہوگی۔ ابتدا میں انہیں سنجیدہ امیدوار نہیں سمجھا گیا بلکہ ایک‘‘اسپوائلر’’یعنی ووٹ خراب کرنیوالا امیدوار تصور کیا گیا۔ لیکن زہران ممدانی نے ثابت کیا کہ وہ ووٹروں سے براہِ راست جڑنے،نئے ووٹرز کو متحرک کرنے، اور انکے حقیقی مسائل کے حل پر مبنی پروگرام پیش کرنیکی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی انتخابی کامیابی میں مؤثر مہم اور سوشل میڈیا ویڈیوز کے شاندار استعمال نے کلیدی کردار ادا کیا۔آپ کو حیرت ہوگی کہ ممدانی نے اپنی انتخابی مہم میں بالی وڈ فلموں اور پاکستانی سیاسی ثقافت کا سہارا لیا۔ ایک مشہور ویڈیو میں ممدانی نے 1975ء کی ایک بھارتی فلم کا حوالہ دیا ہے، جس میں فلم اسٹار امیتابھ بچن کہتا ہے:’’میرے پاس بلڈنگ ہے، پراپرٹی ہے، بینک بیلنس ہے، بنگلہ ہے، گاڑی ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘ششی کپور جواب دیتا ہے:’’میرے پاس ماں ہے!‘‘یہاں زہران ممدانی اداکار شاہ رخ خان کی طرح بازو پھیلا کر نمودار ہوتے ہیں اور اپنے ووٹرز کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: ’’میرے پاس تم ہو۔‘‘اسی ویڈیو میں بعد ازاں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی تقلید کرتے ہوئے ’’روٹی، کپڑا اور مکان ‘‘کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی نعرہ انکے سیاسی نظریے کی بنیاد ہے۔ممدانی کرایوں کو منجمد کرنے، بسوں کو مفت بنانے اور ہر بچے کیلئے نگہداشت کو ممکن بنانے کے خواب دکھا رہے ہیں اور انہی وعدوں کے باعث انکی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی انکے مخالف ہیں اور اب ممدانی کے تمام حریف ملکر انہیں ہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیویارک میئر کا انتخاب اب ایک غیر معمولی اور ہنگامہ خیز مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کیونکہ کچھ ڈیموکریٹس خود ہی اپنے پارٹی کے نامزد امیدوار ممدانی کو ہرانے کیلئے ایک ہو گئے ہیں اور پارٹی پالیسی کے برعکس آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اگر ممدانی کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ گزشتہ ایک صدی کے دوران نیویارک شہر کے سب سے کم عمر میئر ہونگے اور یہ نہ صرف ٹرمپ بلکہ ان کے اتحادی نیتن یاہو کیلئے بھی بڑی شکست ہوگی۔بعض افراد ممدانی کو ذوالفقار علی بھٹو سے تشبیہ دے رہے ہیں تو کچھ حلقوں میں انکا موازنہ عمران خان سے کیا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے ممدانی ایک شستہ ورفتہ پاپولسٹ ہیں جنہوں نے ماضی کے تمام مقبولیت پسندوں کے اوصاف مستعار لیکر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایک نیا نسخہ متعارف کروایا ہے۔