• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام دبے پائوں آتی ہے ، اور گیتوں کا گلا گھونٹ دیتی ہے ۔ اگرچہ تمہارے ساتھی آرام کرنے جا چکے ہیں اور تم تھکے ہوئے ہو، گرچہ اندھیرے میں خوف کے سائے مزید گہرے ہورہے ہیں اور آسمان بھی تاریک ہے ، پھر بھی پرندے، اے میرے پرندے ، میری بات سنو، اپنے پروں کو نہ سمیٹ لینا، ذوق پرواز قائم رکھنا ۔ ( رابندرناتھ ٹیگور )

کہتے ہیں امید کبھی نہیں مرتی۔ یہاں تک کہ بدترین وقتوں میں بھی شمع فروزاںکرلیتی ہے جسکی تابانی چاروں طرف پھیل جاتی ہے ۔ لیکن ایک اور حقیقت بھی ہے جس کا انسان کو سامنا ہے ۔ یہ زندگی کی بے ثباتی ہے۔ کچھ بھی دیر تک نہیں ٹھہرتا۔ زندگی بیم و رجا کی ہر لحظہ رنگ بدلتی تصویر ہے۔اس میں واحد ثبات تغیر کو حاصل ہے۔ انسان کے پاس اس حقیقت کا کوئی توڑ نہیں ، یہ تقدیر کی صورت حاکم ہےجسکی باریک ترین تفصیل نوشتہ ازل قرار پاتی ہے ۔ زندگی کی بے ثباتی کے باوجود یہ امید ہے کہ انسان بچائو کے سائبان بناتا ہے ۔ یہاں ایک نازک توازن برقرار رکھناہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے نظریات کو آگے بڑھانے اور اپنے عزائم کی تاب و تواں قائم رکھنے کےلیے انسان اس قابل فہم نظمِ ہستی کے کئی پہلو جان لیتا ہے ۔ لیکن یہ اس وقت انتہائی مشکل ہو جاتا ہے جب اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا ہو اور روشنی کی امید تیزی سے مدھم ہوتی جا رہی ہو۔ یہ تب ہوتا ہے جب کوئی چیزوں کو تبدیل کرنے کے لئے زیادہ کٹھن مشکلات کو چیلنج کرتا ہے۔ لیکن، بدترین حالات میں بھی امید کا دیا بجھنے نہیں دیا جاسکتا۔ امید آپ کی واحد نجات دہندہ ہے ۔ یہ مشکلات سے لڑنے کا عزم پیدا کرتی ہے۔ جب مجھے کینسر کے علاج کیلئے داخل کیا گیا تو یاد ہے کہ میرے ڈاکٹرز مجھے کیموتھراپی کے نتائج اور اسکی وجہ سے ہونے والی کمزوریوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک گھنٹے سے زیادہ کی بریفنگ کے بعدانھوں نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ وہ ہر وہ کام کریں گے جو طبی طور پر ممکن ہے، لیکن اپنے سر پر انگلی سے ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ذہنی طور پر ہمارے ساتھ ہوں ۔ وہ اندر کی لازوال روح اور اس کی جینے کی امنگ کی ضرورت کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ اپنے طویل علاج کے بدترین مراحل سے گزرتے ہوئے مجھے یاد ہے کہ مجھے اس امید کو زندہ رکھنے کیلئے سخت جدوجہد کرنا پڑی تھی تاکہ وہ دن آئے جب میں اپنے قدموں پر چل کر ہسپتال سے جائوں۔ یہ اندازہ لگانا تو مشکل ہے کہ میرے علاج میں اس عنصر نے کیا کردار ادا کیا، لیکن کہا جا سکتا ہے کہ زندہ رہنے کے اس عزم کے بغیر کینسر سے لڑنا اور اس کی اذیت پر قابو پاناآسان نہیں ہوتا۔مایوسی کا غلبہ ایک فطری امر ہے۔ انسان کو ایسے حالات کا سامنا کرنا اور ایسے تجربات سے گزرنا پڑتا ہے جو اس کے یقین اور عزم کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ تجربہ ان قوموں کی زندگیوں میں اور بھی زیادہ عام ہے جو اتار چڑھاؤ سے گزرتی ہیں ۔اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ انھیں کتنی آزادی حاصل ہے، اور ریاست کی شرح نمو کے کیاامکانات ہیں۔ مثالی صورت حال تو یہ ہے کہ مشکل وقت کا سامنا آزادیوں میں کمی کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ اس کے برعکس، ان میں اضافہ کیا جانا چاہئے تاکہ لوگوں کی زندگی میں ترقی کرنے کے مزید مواقع پیدا ہوں۔آزادی جہاں ہر شہری کا ناقابل تنسیخ حق ہے، وہیں یہ ایک مقدس امانت بھی ہے جو ریاست اپنے لوگوں کی ذاتی بہتری اور بھلائی کیلئے رکھتی ہے۔ یہ انہیں باہم حوصلہ اور کام کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے تاکہ وہ از سرنو ہمت دکھاتے ہوئے وقار کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرسکیں۔ آزادی کی کمی یا نقصان روح کو بے دم اور گھائل کر سکتے ہیں ۔ کسی بھی حالات میں ، چاہے ملک پر کیسی ہی ابتلا آئی ہو ئی ہو، بحرانوں سے نمٹنے کا یہی راستہ ہے ۔ لوگوں کو ان کی آزادیوں سے محروم کر کے حب الوطنی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست پربد اعتماد ی اور قوانین،جنکی وجہ سے وہ اپنے آئینی حقوق سے محروم رہتے ہیں ، کے استعمال سے اسکے برعکس نتیجہ نکلتا ہے ۔یہ سوچ انتشار کا باعث بنتی اور ملک کو کمزور کرتی ہے ۔ اتحاد اسی صورت میں ممکن ہو گا جب ریاست اپنے لوگوں کو اپنا مانے اور انہیں اپنے خوابوں کی تعمیر ڈھونڈنے اور آئین کے متعین کردہ پیرامیٹرز کے اندر اپنے نظریات کو آگے بڑھانے کی جگہ فراہم کرے۔

پاکستان اپنے عوام کے ساتھ تعلقات کی داغدار تاریخ رکھتا ہے۔ جب بھی کسی قسم کی مہم جوئی کا سامنا ہوا تو عوام کی آزادیاں اور حقوق پہلا نشانہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک غلط خیال ہے کہ اگر لوگوں کو جکڑ میں رکھا جائے تو امن قائم ہو جائے گا۔ اس نے کبھی کام نہیں کیا لیکن کئی دہائیوں سے فوجی اور سویلین حکمرانوں کے ادوار نے نہ صرف اس اعتماد کو متاثر کیا ہے جو لوگوں کا ریاست پر ہونا چاہیے بلکہ اس نےہمت اور یقین کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے عزم کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ کچھ نے کامیابی کے شارٹ کٹ تلاش کیے ہیں جس میں مختلف قسم کے بدعنوان طریقے بھی شامل ہیں۔

ہم اپنی قومی حیات کی نچلی سطح پر ہیں۔ ریاست کا اپنے لوگوں کے ساتھ رشتہ متزلزل ہوا ہے ۔اسے پائیدار بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی تاکہ آئین میں درج آزادی سے مستفید ہوتے ہوئے وہ اپنے اور اپنے خاندانوں کے آگے بڑھنے کے مواقع پیدا کر سکیں۔ جب ریاست کو اندرونی یا بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہو تو ان آزادیوں کا دائرہ بڑھانا،نہ کہ کم کرنا چاہیے۔ اس سے ان لوگوں کے جذبے کو تقویت ملے گی اور وہ قوم کی تعمیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ۔

ماضی کے چیلنجوں کے ساتھ ساتھ ان سے نمٹنے کی کوششوں سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے تھا کہ لوگوں کے آئینی حقوق پر پابندیاں لگا کر ان کی توانائیاں سلب کرنا انتہائی نقصان دہ ہے۔یہ قوم کی توانائیوں کو زک پہنچاتا ہے۔ انہیں آزاد ہونے کی ضرورت ہے، اور انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ہیں۔ باہم مربوط اقدار کے ذریعے ہی ایک قوم کی تعمیر ہوسکتی ہے ۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب لوگ آزاد ہوں اور وہ دل سے اپنے ملک کے مفاد کیلئے کام کریں ۔ جب امید کا چراغ گل ہوجاتا ہے تو تباہی کا اندھیرا اترنے لگتا ہے۔

(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین