عمران خان کے بیٹوں قاسم اور سلیمان خان کی پاکستان آمد اور 5 اگست کے احتجاج کی قیادت کے حوالے سے پی ٹی آئی اور حکومتی حلقوں میں جاری بحث تا دم تحریر کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا اور فریقین اپنی اپنی جگہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔لیکن یہ واضع ہے کہ پی ٹی آئی قیادت بانی کے دونوں بیٹوں کو پاکستان آنے سے روکنے کے لئے آسان اور محفوظ راستہ تلاش کررہی ہے لیکن کوئی بہانہ کارگر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔جبکہ عمران خان واضع الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ قاسم اور سلیمان اگر ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں لیکن کبھی احتجاجی تحریک میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی۔پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کے بیٹے قاسم اور سلیمان خان پاکستان آ کر 5 اگست کے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کریں گے۔ دوسری جانب، حکومتی اور کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے اس دعوے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ قاسم اور سلیمان کے NICOP (National Identity Card for Overseas Pakistanis) گم ہو گئے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے پاکستان آنے کے لیے ویزے کی درخواست دی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ اگر قاسم اور سلیمان پاکستانی شہری ہیں اور ان کے پاس NICOP تھے، تو انہیں پاکستان آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں۔ ویزے کی درخواست دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پاس پاکستانی شہریت نہیں ہے۔پاکستانی قوانین کے مطابق، اگر کوئی شخص پاکستانی شہری ہے تو وہ NICOP یا پاسپورٹ کے ذریعے ملک میں داخل ہو سکتا ہے۔ ویزا صرف غیر ملکیوں کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس سے یہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ یا تو قاسم اور سلیمان خان کی پاکستانی شہریت ختم ہو چکی ہے، یا وہ کبھی پاکستانی شہری تھے ہی نہیں۔ ذرائع کے مطابق، وہ برطانوی شہری ہیں اور ان کی پیدائش اور پرورش برطانیہ میں ہوئی ہے۔اڈیالہ جیل سے عمران خان کے بیانات بھی اس حوالے سے تضادات کا مجموعہ رہے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بیٹوں کو پاکستان آنے سے روکیں گے کیونکہ وہ انہیں کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ بعد میں پی ٹی آئی کی جانب سے دوبارہ ان کی آمد کے دعوے کیے گئے۔اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے اپنے شہریوں کے لیے پاکستان کے لیے جاری کی گئی ٹریول ایڈوائزری بھی اس معاملے میں اہم ہے۔ اس ایڈوائزری میں شہریوں کو احتجاجی مظاہروں اور ہجوم سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اگر قاسم اور سلیمان برطانوی شہری کے طور پر پاکستان آتے ہیں اور احتجاج کی قیادت کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے قانونی اور ذاتی طور پر خطرناک ہو سکتا ہے۔عمران خان کی بہن علیمہ خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے بھتیجوں نے پاکستانی ہائی کمیشن، لندن میں ویزے کی درخواست جمع کرائی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہائی کمیشن نے بتایا ہے کہ ویزا درخواستوں کی منظوری وزارت داخلہ کے پاس زیر التوا ہے۔حکومتی موقف ہے کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے مطابق، قاسم اور سلیمان کو ماضی میں NICOP کارڈ جاری کیے گئے تھے اور انہوں نے آخری بار پاکستان کا سفر انہی کارڈز پر کیا تھا۔ اس کے علاوہ، وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے ویزے براہ راست ہائی کمیشن یا وزارت خارجہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور وزارت داخلہ ایسے ویزے جاری نہیں کرتی۔ ان حقائق کے تجزیہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قاسم اور سلیمان خان کی پاکستان آمد اور احتجاج کی قیادت کا دعویٰ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔بنیادی سوال یہ کہ کیا جمائما گولڈ سمتھ اپنی نوجوان اولاد کو خطرے میں جھونکنے کی اجازت دے سکتی ہیں؟اگر وہ پاکستانی شہری ہیں، تو انہیں ویزے کی ضرورت نہیں اور وہ اپنے NICOP پر سفر کر سکتے ہیں۔ ویزے کی درخواست اس بات کو مشکوک بناتی ہے۔اگر وہ برطانوی شہری ہیں، تو ان کے لیے احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنا نہ صرف قانوناً ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے بلکہ یہ ان کے اپنے والد کی طرف سے دی گئی ہدایات کے بھی خلاف ہو گا۔حکومتی حلقوں کی جانب سے ویزا درخواستوں سے متعلق دیئے گئے بیانات اور قانونی سقم اس معاملے کو مزید الجھا رہے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ قاسم اور سلیمان خان کی آمد کا دعویٰ ایک سیاسی بیانیہ ہے جو پارٹی کارکنوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ زمینی حقائق اور قانونی رکاوٹوں کو دیکھتے ہوئے ان کی احتجاج میں شرکت کا امکان بہت کم ہے۔