• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں ممبئی کے جاوید اختر پاکستان میں بہت ’’اِن‘‘ ہیں، انہوں نے گزشتہ دنوں پاکستان کے بارے میں کافی زہر اُگلا اور اسکا جواب پاکستان کے تمام ادبی و غیرادبی حلقوں کی طرف سے سامنے آیا۔ جاوید اخترسے میری دو تین ملاقاتیں ہیں، دو ملاقاتیں انڈیا میں اور ایک پاکستان میں ہوئی۔ وہ بہت اچھی پرسنیلٹی کے مالک ہیں، مشاعروں میں ان کو بہت اہتمام سے بلایا جاتا ہے۔ مگر مجھے ان کی شاعری نے کبھی متاثر نہیں کیا۔ سو ممبئی کی فلم انڈسٹری سے وابستگی اور چند مقبول گیت لکھنے سے ان کی آئو بھگت بہت کی جاتی ہے۔ لاہور میں فیض احمد فیض ایسے باکمال شاعر، باکمال انسان اور باکمال پاکستانی کی پذیرائی فیض صاحب کی اولاد فیض کے نام پر کاروبار کر رہی ہے۔ وہ کسی اور کو مدعو کرے نہ کرے فلمی دنیا کے حوالے سے شہرت یافتہ جاوید اختر کو ضرور مدعو کرتی ہے اور انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ پاکستان کے بارے میں کیا کہتے ہیں مگر دوسرے پاکستانیوں کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے۔ تاہم جاوید کا ذکر بعد میں پہلے شبانہ بیگم سے مل لیں۔روزِ اوّل سے سرمد صہبائی میراپسندیدہ شاعر ہی نہیں، پسندیدہ شخص بھی ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے جاوید اختر کی بیگم اور اداکارہ شبانہ کے حوالے سے ایک دلچسپ تحریر پڑھی، سرمد ایک کھلے دل و دماغ کا شخص ہے، اسکی پاکستان سے محبت (میری طرح) جارحانہ نہیں، بلکہ بہت مقصدی ہے، مگر جاوید اور شبانہ کے رویوں نے انہیں بھی ’’اگریسو‘‘ بنا دیا۔ میں اب اپنی طرف سے کچھ نہیں کہوں گا کہ سرمد کی گفتگو کا مزا خراب ہوگا، سو میں درمیان سے نکلتا ہوں اور آپ اور سرمد کو آمنے سامنے کرتا ہوں!’’یہ ایک نہ بھولنے والی رات تھی۔ 1989ء میں شبانہ اعظمی جمیل دہلوی کی فلم The Immaculate Conceptionمیں کام کرنے پاکستان تشریف لائی تھیں۔ میں اس زمانے میں اپنی فلم فنکار گلی بنا رہا تھا۔ جمیل کا مقامی پروڈیوسر احسن چوہدری جسے میں پیار سے پنڈت کہتا تھا، میری فلم کا بھی پروڈیوسر تھا۔ تقریباً ہر شام پنڈت کے گھر ہماری محفل جمتی۔ میں جمیل کے سکرپٹ کے اردو کے مکالمے لکھ رہا تھا۔ اس میں پاکستانی جرنلسٹ خاتون کا بھی رول تھا جسکے ایک انگریز کے ساتھ تعلقات بنتے ہیں اور وہ اسے پاکستان کے کچھ خفیہ راز بتاتی ہے۔ رول کوئی زیادہ اہم نہیں تھا، لیکن اس کیلئے جمیل نے شبانہ اعظمی کو کاسٹ کیا تھا۔ جب شبانہ کراچی تشریف لائیں تو ہر آدمی ان سے ملنا چاہتا تھا۔ بڑے رئیس زادے اور سیاست دان انہیں گھر بلانا چاہتے تھے۔ ایک دن جمیل نے مجھ سے کہا تم شبانہ سے ملنا چاہتے ہو؟ میں نے شبانہ کی کچھ فلمیں دیکھی ہوئی تھیں۔ خاص طور پر جن کو شیام بینیگل نے ڈائریکٹ کیا تھا اور ان میں مجھے ان کی اداکاری بہت پسند آئی تھی۔ میں شبانہ جی کا مداح تو ضرور تھا لیکن میں کبھی کسی مشہور شخصیت کو زندگی میں نہ تو خواہ مخواہ ملا تھا اور نہ ملنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا اگر وہ اسی طرح جیسے یہاں تم بیٹھے ہو ہمارے ساتھ بیٹھی ہوں تو کوئی حرج نہیں، لیکن میں ان سے خاص طور پر نہیں ملنا چاہتا۔ جمیل نے کہا میں اسے تمہارے بارے میں بتا دوں گا۔ وہ تمہارے ساتھ مل لے گی۔ میں نے اسے پھر کہا یار! میں اس کو اس طرح نہیں ملنا چاہتا۔ اتفاقاً ملاقات ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس پر پنڈت نے کہا بکواس نہ کرو۔ میں بھی اس سے ملنا چاہتا ہوں ہم دونوں اکٹھے ملیں گے۔ میں خود تمہیں ساتھ لے کر جائوں گا۔کراچی شہر میں شبانہ کا والہانہ استقبال کیا جا رہا تھا۔ روزانہ وہ کسی نہ کسی ڈنر پارٹی میں بلائی جاتیں۔ انکے ساتھ تصویریں کھنچوائی جاتیں اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا۔ دوسرے دن جمیل نے کہا شبانہ سے اس کی بات ہو گئی ہے تم لوگ رات گیارہ بجے اسے پارٹی سے لے کر کہیں اکیلے بیٹھ کر گپ شپ کر لینا۔ پنڈت شام کو نہا دھو کر خوب تیاری کے ساتھ مجھے کار میں بٹھا کر ایک عالی شان بنگلے میں لے گیا۔ میں نے کہا تم اندر جائو اور شبانہ جی کو لے آئو۔ میں گاڑی کے اندر ہی بیٹھتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد شبانہ جی نیلی ساڑھی میں ملبوس پائوں میں اونچی ایڑیاں پہنے باہرآئیں اور کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ کوئی خاص تعارف نہ ہوا۔ بس گاڑی کراچی کی کشادہ سڑکوں پر چل پڑی۔ چاروں طرف سانیو، فلپس ٹی وی، پیناسونک اور ایسی کئی کمپنیوں کے بڑے بڑےنیون سائز چکاچوند پیدا کر رہے تھے۔ ایک دم پچھلی سیٹ سے آواز آئی۔ Why you Pakistani People are so colonial ?’’تم پاکستانی لوگ اتنے کلونیل کیوں ہو؟‘‘میں شبانہ جی کے لہجے اور طرزِ تخاطب پر حیران ہوا ۔ یہ تم پاکستانی لوگ کلونیل؟اس سے پہلے کہ ہم میں سے کوئی بولتا۔ انہوں نے پھر فرمایا:What are these multinationals doing here.Why don't you throw them out?’’یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہار یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ ان کو اپنے ملک سے باہر کیوں نہیں نکالتے؟‘‘ہم دونوں بالکل خاموش رہے یوں لگا جیسے وہ کوئی بیگم ہیں اور ہم ان کے دو ملازم ،جنہیں ڈانٹا جا رہا ہے۔ میرے ذہن میں تھا کہ ہم ان سے کوئی فلموں کی بات کریں گے کچھ ادب اور کلچر کے بارے میں گپ شپ کریں گے لیکن وہ تو کسی اور ہی موڈ میں تھیں۔Where are the slums of this city?تھوڑی دیر بعد پھر بولیں ’’اس شہر کی غریب آبادیاں کہاں ہیں؟‘‘یاد رہے کہ یہ سب گفتگو وہ انگریزی یعنی ایک نوآبادیاتی زبان میں کر رہی تھیں۔’’وہ ان بلڈنگز کے پیچھے ہیں‘‘ پنڈت نے ڈرتے ڈرتے بلند عمارتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:So you have pushed them behind these tall buildings’’اچھا تو آپ لوگوں نے انہیں ان اونچی بلڈنگوں کے پیچھے دھکیل دیا ہے‘‘ایک اور ڈانٹ پڑی۔ اپنے ملک سے محبت سبھی کو ہوتی ہے، لیکن اس کو بہانہ بنا کر کسی دوسرے ملک کو نیچا دکھانا کم از کم ایک آرٹسٹ کو زیب نہیں دیتا۔ بھارت سے بہت سے فنکار پاکستان آ چکے ہیں۔ دلیپ کمار، اوم پوری، نصیر الدین شاہ، شیام بینیگل اور کئی ادیب اور شاعر جیسے شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی صاحب۔ (باقی کل)

تازہ ترین