• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

جاوید اختر اور شبانہ اعظمی جیسے فنکاروں سے ہماری سرزمین کا واسطہ محض فنونِ لطیفہ کی حد تک رہا ہے لیکن جب یہی شخصیات سرحد پار بیٹھ کریا ہمارے ملک میں آ کر تہذیب و تمدن پر تنقید کے نشتر برساتی ہیں تو ہمارا خون کھول اٹھتا ہےگزشتہ کالم میں ،میں ،نے شبانہ اعظمی کی پاکستان آمد اور انکےمتکبر رویے کا ذکر سرمد صہبائی کےمضمون کے حوالے سے کیا تھا اسکی دوسری قسط پیش ہے۔سرمد صہبائی نے کہا میںنے ان میں سے کسی کو بھی پاکستان کے بارے میں اتنی ہٹ دھرمی کیساتھ بات کرتے نہیں دیکھا۔ اسی طرح ہمارے بہت سے فنکار، ادیب شاعر بھارت جا چکے ہیں، فیض صاحب، احمد فراز، نور جہاں، مہدی حسن اور بہت سے اور جنہوں نے ہمیشہ امن، انسان دوستی اور محبت کا پیغام دیا ہے لیکن افسوس کچھ ایسے کم ظرف بھارتی بھی ہیں جو باہر کے ملکوں میں اور بھارت میں کسی نہ کسی طرح ہمیں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل میں تو ہندوستان ایک ہی ہے لیکن ہم پاکستانیوں نے بلاوجہ اپنی ڈیڑھ انچ کی الگ مسجد بنا لی ۔میرے ساتھ اکثر ایسے واقعات پیش آئے،جن میں سے ایک چھوٹا سا واقعہ یوں ہے کہ مجھے اوسلو ناروے کی آرٹس کونسل میں انگریزی میں تھیٹر پرایک مقالہ پڑھنا تھا۔ اس کانفرنس کے ناظرین میں نارویجینز کے ساتھ کچھ سکھ اور بھارت کے لوگ بھی شامل تھے۔ مقالے کے بعد سوال جواب کے وقفے میں ایک بھارت کے باشندے جنکا پورا نام تو مجھے یاد نہیں بس ’دتا‘ یاد ہے۔ وہ اٹھے اور کہا، ’دیکھیں بھائی صاحب آپکی موسیقی تو ہماری موسیقی ہے۔ آپ تو وہی گاتے ہیں جو ہم گاتے ہیں۔ ذرا اسکی وضاحت کریں‘ دتا جی کے اس سوال کا میرے مقالے سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا لیکن وہ حاضرین کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ اصل میں تو ہم ایک ہی ہیں لیکن پاکستانیوں نے اپنا ایک الگ ملک بنا رکھا ہے۔میں نے ان سے نہایت عزت اور احترام کے ساتھ کہا، ’بالکل جناب ہماری اور آپ کی ثقافت میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں لیکن کچھ مختلف بھی ہیں‘ اس پر وہ بضد ہو گئے اور بار بار یہی سوال دہرانے لگےمیں نےیکدم انہیں پنجابی میں کہا، ’دتا جی، قوالی ہے جے؟، کافی گا لیندے او؟، غزل ہے جے؟، گجل ای گاندے او ناں‘ (قوالی ہے آپ کے پاس؟ کافی گا لیتے ہیں آپ؟ غزل ہے؟ گجل ہی گاتے ہیں نا آپ؟) اس پر جو لوگ پنجابی سمجھتے تھے وہ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ میں نے کہا ’دتا جی ایہہ گل میں پنجابی وچ ایس لیٔ کہہ رہیا اں جے ایتھے باہر دے ملکاں دے لوگ وی بیٹھے ہوئے نیں۔ میں نئیں چاہندا اوہناں نوں ایس گل دا پتہ لگے‘ ( دتا صاحب میں یہ بات میں اس لیے پنجابی زبان میں کہہ رہا ہوں کہ یہاں باہر کے ملکوں کے لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کو اس بات کا پتہ چلے) اس پر پھر ایک قہقہہ لگا۔میری شبانہ جی سے ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ وہ ہم سے دتا جیسی گفتگو فرمائیں گی، میں نے دل میں سوچا ’مانیا گل ودھ گئی اے‘ (بات بڑھ گئی ہے یعنی برداشت سے باہر ہو گئی ہے)۔ میں نے نہایت عاجزی سے ان سے کہا، ’اصل میں شبانہ جی دنیا میں جو بھی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے اسے ہر شخص حاصل کرنا چاہتا ہے، اور اس پر اس کا حق بھی ہوتا ہے۔ اب ہمارے اور آپ کے ورکرز جب دبئی جاتے ہیں تو ذرا سوچیں وہ وہاں سے کیا لانا چاہتے ہیں، یہی وی سی آر، ٹی وی سیٹس، کیمرے، اب یہ سب کچھ اگر ہم نے ایجاد کیا ہوتا تو ظاہر ہے یورپ، جاپان امریکا ہم سے یہ چیزیں خریدتے۔ ویسے بھی ہم آپ ٹیکنالوجی میں جتنی بھی ترقی کر لیں وہ آج کی بیسویں صدی میں یورپ امریکا سے کم تر اور ناپائیدار ہو گی اس لیے کہ بغیر کسی مقامی صنعتی انقلاب کے ہم ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی نہیں بنا سکتے اور جو بھی بنائیں گے اس میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور رہ جائیگا، لیکن ہم پھر بھی بھارت کو سیلوٹ کرتے ہیں کہ اس نے ان ساری غیر ملکی چیزوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اب آپ نے تو پہیہ بھی دوبارہ سے ایجاد کر لیا ہے میرا مطلب ہے اپنی موٹر کار بنالی ہے، بس اس میں ایک ہی نقص ہے کہ وہ صحیح طرح موڑ نہیں کاٹ سکتی۔ میرے خیال میں بیسویں صدی میں اس طرح کا نیشنلزم Regressive اور primitive ہو گا۔ ’میرے ان لفظوں یعنی قدامت پسندی اور فرسودہ قومیت پسندی اور پہیے کی دوبارہ ایجاد پر شبانہ جی غصے میں آ گئیں لیکن جواب دیے بغیر پھر کہا ’I have to see the slums of this city‘، ’مجھے اس شہر کے سلمز دیکھنے ہیں۔ ‘ ’میں نے کہا‘ شبانہ جی غربت تو ہمارے ملک میں بھی ہے اور آپ کے ملک میں بھی، آپ نے بمبئی اور کلکتہ کے سلمز تو ضرور دیکھے ہونگے، انکے سامنے تو یہ آپ کو ایک خوشحال آبادی نظر آئیگی، ویسے رات کے اس وقت تو ہم وہاں ٹورسٹوں کی طرح ہی جا سکتے ہیں اورغربت کو کار کے شیشوں کے پیچھے سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ چھوڑیں وہ کبھی ہم آپ کو دن کے وقت پیدل لیجاکر دکھا دیں گے۔شبانہ جی کے میاں جاوید اختر صاحب جو ایک پبلک انٹلیکچول ہیں انہوں نے لاہور یاترا کے بعد بھارت میں ایک پریس کانفرنس میں حسب معمول اپنی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بڑی گہری بات کی۔ انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ ’لاہور والے کمال کے لوگ ہیں۔ میں نے سارا لاہور دیکھا مگر مجھے کوئی غریب آبادی نظر نہیں آئی، میں بہت حیران ہوا لیکن پھر میں نے سوچا کہ یہ لاہور والے واقعی بہت کمال کے لوگ ہیں۔ انہوں نے اپنی غریب آبادیاں بڑی بڑی عمارتوں کے پیچھے کس خوبصورتی سے چھپا رکھی ہیں‘اب خبر یہ ہے کہ جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت تشریف لائے تو تاج محل کے پیچھے جتنی غریب آبادیاں تھیں ان کے گرد دیوار کھینچ دی گئی تھی۔ شاید اس خوف سے کہ ان آبادیوں کی بے تحاشا غربت کے سامنے تاج محل کا خیرہ کن حسن ماند نہ پڑ جائے۔چلیے ہم آپکو کسی ریسٹورنٹ میں اچھی سی کافی پلاتے ہیں؟ ’میں نے انہیں خوشدلی سے کہا ’نہیں مجھے کوئی کافی وافی نہیں پینی،‘ ’تو پھر آپ حکم کریں آپ کہاں جانا چاہتی ہیں‘ پنڈت نے مودب ملازم کی طرح پوچھا ’ہمیں آپ کی عابدہ پروین کو سننا ہے،‘ ’واہ یہ تو کمال کی بات ہے،‘ میں نے خوش ہو کر کہا۔ ’میں ان سے بات کر کے دیکھتا ہوں‘میری عابدہ صاحبہ اور خاص طور پر انکے میاں شیخ غلام حسین سے بہت اچھی اور پرانی دوستی تھی، عابدہ صاحبہ نے میرا لکھا ہوا گانا بھی جمیل کی اس فلم کیلئے گایا تھا۔ پنڈت نے کسی پی سی او کے پاس گاڑی روکی اور میں نے شیخ صاحب کو فون کیا، وہ بڑے خوش ہوئے اور کہا، آپ لوگ ضرور آئیں۔ ہم آپ کے منتظر رہیں گے۔ (باقی کل)

تازہ ترین