ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاںہماری سرگرمیاں ہر آن وسعت پذیر ہیں ، ہم زیادہ دلیرانہ تصورات اور خیالات کو اپنا رہے ہیں۔ یہ سوچنا بھی ناممکنات میں سے ہے کہ ہم اس نہج تک جا پہنچیںگے جب کسی نہ کسی رجعت پسندانہ وجہ کی بنا پر انسانی فعالیت اور حرکیات پر قدغن لگ جائے۔ لیکن پھر خوف کا واہمہ تو ہر آن دامن گیر رہتاہے ۔
کچھ حوالوں سے گزرتے وقت کے ساتھ اس میں شدت آتی جارہی ہے ۔ اس کا اظہار ان گنت ذرائع سے ہوتا ہے جن میں سے کچھ سے عہدہ برآ ہوا جا سکتاہے ، جب کہ دیگر ناقابل اصلاح ہوتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ایسا پرکشش لیکن تباہ کن احساس جڑا ہوتا ہے جوہمیشہ تباہی اور تاسف کا باعث بنتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہم کسی ایسے ہی مرحلے میں سے گزر رہے ہیں ۔
ایک حاضر سروس وفاقی وزیر اسے ہائبرڈ ماڈل کہتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایسا نظام اسی وقت قائم کیا جا سکتا ہے جب آئین، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کا بازومروڑ کر ان کا اختیار ایگزیکٹو کے ہاتھ میں دے دیا جائے، جو پھر مصنوعی طور پر وجود میں لائی گئی اکثریت کے ذریعے اس عمل کی نگرانی کرے جسکے تحت ریاستی اداروں کی آزادی کوسلب کرکے عہدے من پسند افراد میں بانٹ دیے جائیں۔ گویا ریاست کی تمام تر فعالیت ایک فرد، یا افراد کے ایک گروہ کی گرفت میں ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح کا مرحلہ بعض لوگوں کو ایسا ماحول بنانے میں مدد دے جو ان کے اغراض و مقاصد کیلئے ساز گار ہو،لیکن تباہی کا وہ سلسلہ جو اس سے آنے والی نسلوں کو برداشت کرنا پڑے گا، منطق اور عقل کی حدود سے ماورا ہوگا۔ اس سے آنے والی تباہی کا حدو حساب نہ ہوگا۔
ایسے حالات میں بنیادی مسئلہ جو دماغوں کو ہلا کر رکھ دے گا وہ یہ ہے کہ کیا ایسا ہائبرڈ نظام ایسے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے گا جو آئین کی مطابقت، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت پر کڑے پہرے لگانے سے سامنے آئیں گے ؟ اگر منطقی پیمانے پر پرکھیں تو ایسے ساختی بندوبست کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے اور یہ جلد ہی منہدم ہوکر ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے ۔ لیکن اپنی عملداری کے دوران جو اثر یہ چھوڑ جاتا ہے ، وہ ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کردیتا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طویل مفاد کے امکان کے بغیر ایسا منصوبہ کیوں شروع کیا جائے؟ کیوں نہ طے شدہ جمہوری طریقے پر چلا جائے اور ایسے پروگرام کی تکمیل کیلئے لوگوں کی حمایت حاصل کی جائے جس سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست کو فائدہ پہنچے گا؟ شیکسپیئر کے الفاظ اس رویے کی وجہ کا کھوج لگانے میں برمحل ہوںگے: عیب، پیارے بروٹس، ہمارے ستاروں میں نہیں، ہم میں ہے....
میں نے اکثر ان مجبوریوں کی تفہیم کے بغیر ان کاجائزہ لیا ہے جنکے نتیجے میں ایسا خطرناک راستہ اختیار کرنا پڑ جاتا ہے جو ریاست کو کئی سال، بلکہ کئی عشرے پیچھے لے جاتا ہے ، بلکہ اس کا تباہ کن اثر اس سے بھی طویل مدت تک باقی رہتا ہے۔ اس قسم کے ذاتی فائدے کے باوجود جو کچھ افراد کو حاصل ہو سکتا ہے۔ ہمیں ماضی میں بھی ایسے تجربات ہوئے ہیں لیکن ہم نے ان سے سیکھنے سے انکار کیا ہے۔ لہٰذا، یہاں ہم ایک بار پھر اسی جانے پہچانے راستے پر چلنے کا تہیہ کیے ہوئےہیں ۔
ملک کو بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے، جن میں سے کچھ دہائیوں سے موجود ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ۔ اپنی تازہ ترین رپورٹ میں ایچ آر سی پی نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال سے خبردار کیا ہے جس میں مسلسل جبری گمشدگیاں، سمٹتے ہوئے شہری امکانات، صوبائی خودمختاری میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔ کمیشن نے نوٹ کیاہے کہ یہ حالات عوام کی بیگانگی اور سیاسی عدم استحکام کو ہوا دیتے ہیں۔ اس نے جمہوری عمل پر عوام کے عدم اعتمادپر بھی روشنی ڈالی اور تمام مراحل پر شفافیت، انصاف اور احتساب کو یقینی بنانےکی سفارش کی ہے۔
ہم طویل عرصے سے ہنگامہ خیز لہروں سے گزرتے رہے ہیں جن کی تیزی اور تندی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس بگاڑ کو روکنے کے طریقوں پر غور کیا جائے اور باہمی اعتماد اور رواداری کا کلچر اپنایا جائے۔ اگرچہ پالیسی ساز اپنی گرتی ہوئی سیاسی خوش بختی کو بچانے کیلئے انتہائی غلط طرزعمل کو جاری رکھنے کا چارہ کر سکتے ہیں، لیکن یہ پالیسی پہلے سے ہی بکھرتے ہوئے ریاستی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی جو کہ تین ستونوں کی بجائے ایک پر کھڑا ہے جو کہ ایگزیکٹو ہے۔ حالات ناقابل بیان حد تک خطرناک ہوتے جارہے ہیں ۔
تمام تر انکار کے باوجود میں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہمیشہ بات چیت شروع کرنے کی التجا کی ہے تاکہ بقائے باہمی کا راستہ تلاش کیا جا سکے۔ موجودہ بندوبست، جسے اسکے اپنے حامیوں کے ہائبرڈ نظام کا نام دیتے ہیں، بنیادی طور پر منہدم ہو چکا ہے کیونکہ اس نے اختلاف رائے کے امکان کو روند کر رکھ دیا ہے۔ ہم آہنگی پر مجبور کرنے کیلئے ریاستی طاقت کے بے تحاشہ استعمال نے مزید اختلافی آوازیں پیدا کی ہیں ۔ اسلئے دانائی کا تقاضا ہے کہ مفاہمت کی راہ تلاش کی جائے ۔ موجودہ نظام اپنی عمر پوری کر چکا ، اس لیے عقل مندی اسی میں ہے کہ اس کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے ۔ اس پس منظر میں، اور ریاست کی سلامتی کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کے ساتھ، اب سمجھدار آوازیں زیادہ زور اور زیادہ استقامت کے ساتھ سنائی دے رہی ہیں۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کی قیادت کے دو روزہ اجلاس کے بعد اس نے سچائی اور مصالحتی کمیشن بلانے کی تجویز دی ہے۔ یہ جزا یا سزا کے دائرے سے باہر کام کرے گا اور گزشتہ سات دہائیوں سے متعلق حقائق سے پردہ اٹھانے اور انہیں ملک کے عوام کے سامنے رکھنے کیلئے مکمل طور پر پرعزم ہوگا۔اس طرح کے کمیشن کی کامیابی کا کلیدی عنصر ان تمام لوگوں کی طرف سے سچائی کا رضاکارانہ اعتراف ہے جو گزشتہ دہائیوں سے سربراہ رہے ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کردار ادا کیا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ اس طے شدہ روش سے کنارہ کشی اختیار کی جائے اور حقائق کو سب کے سامنے رکھ دیا جائے۔ قانون سے استثنیٰ کا دعویٰ کسی کا استحقاق نہیں۔ عوام کی نگاہ میں سب برابر ہوں ، سب کی توقیر ہو۔ صرف اسی طرح مستقبل کی طرف بڑھنے کا ہموار راستہ تراشا جا سکتا ہے۔
(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)