(گزشتہ سے پیوستہ)
بھارت کے جاوید اختر اور شبانہ جی کے پاکستان مخالف رویے پر سرمد صہبائی کا تحریر کردہ مضمون، گزشتہ دو اقساط میں قارئین کی بھرپور توجہ اور پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ آج، بغیر کسی تمہید کے، اسی سلسلے کی تیسری قسط پیش خدمت ہے۔سرمد صہبائی لکھتے ہیں’’اب ہم عابدہ صاحبہ کے گھر کی طرف چل پڑے۔ عابدہ صاحبہ نے شبانہ جی کا زبردست استقبال کیا، گھر کے دروازے پر پھولوں کے ہار لٹک رہے تھے اور اندر فرش پر چاندنی بچھی ہوئی تھی، جن پر خوبصورت رنگوں والے کشن اور گاؤ تکیے رکھے تھے۔ عابدہ صاحبہ نے خود شبانہ کو اور ہمیں پھولوں کے ہار پہنائے، عابدہ صاحبہ نے جلدی میں کچھ اور لوگوں کو بھی بلا لیا تھا جن میں زیادہ تر ان کے ہمسائے میں رہنے والے لوگ تھے۔
ان میں سوائے مولانا احترام الحق تھانوی کے کوئی بھی مشہور شخص نہیں تھا، بس آٹھ دس عام لوگ تھے۔ تھوڑی دیر وہاں رکنے کے بعد میں نے شبانہ جی سے کہا، ’شبانہ جی آپ یہاں عابدہ صاحبہ اور انکے مہمانوں کیساتھ گپ شپ کریں، ہم ذرا اوپر جا رہے ہیں۔‘میں پنڈت اور شیخ صاحب اوپر کمرے میں چلے گئے، ایک آدھ گھنٹے میں سوائے شیخ صاحب کے جب ہم حالت سکر میں نیچے آئے تو شبانہ جی لوگوں کو انقلاب کی تعلیم دے رہی تھیں۔ انہوں نے پورا ایک اسٹڈی سرکل کا ماحول بنایا ہوا تھا۔ وہ مسلسل بولے جا رہی تھیں اور لوگ کچھ سمجھے بغیر انکی باتیں بڑی خاموشی اور انکساری سے سن رہے تھے۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ سب لوگ کلونیل ہیں، آپ بغاوت کریں اور انقلاب لیکر آئیں ۔ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملک سے باہر نکالیں اور ایک پراپرٹی لیس Propertyless معاشرے کیلئے جد و جہد کریں۔ لگتا تھا وہ اپنے ملک سے زیادہ پاکستان میں انقلاب لانے کی فکر میں ہیں، جیسے یہاں انقلاب لانا انکا مشن ہے، اور جیسے وہ کسی فلم میں کام نہیں کرنے آئیں بلکہ انقلاب لانے آئی ہیں۔ ’مانیا گل ودھ گئی اے‘ میں نے دل میں پھر سوچا اور انکے سننے والوں میں شامل ہو گیا۔ اپنی مسلسل گفتگو کے بیچ جب انہوں نے ہلکا سا وقفہ لیا تو میں نے کہا،’’ واہ شبانہ جی ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی کی بات ہو سکتی ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک سے ایک سرگرم انقلابی فنکارہ ہم غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو بیداری اور انقلاب کا پیغام دے رہی ہیں، مگر مجھے ایک بات سمجھ نہیں آرہی کہ آپ اس قدر انقلابی اور اینٹی کلونیل ہوتے ہوئے بھی ہمارے ملک میں ایک کلونیل رول کر رہی ہیں‘‘۔شبانہ جی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں نے جمیل کا سارا اسکرپٹ پڑھا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے اسی ڈانٹ ڈپٹ کے لہجے میں کہا، ’How can you speak for my character?‘( ’آپ میرے کردار کے بارے میں کیسے کچھ کہہ سکتے ہیں۔ ‘ )میں نے کہا، ’It‘ s not me but your character in the script speaking. ’( یہ میں نہیں اسکرپٹ میں آپکا کردار کہہ رہا ہے‘)اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتیں میں نے یکدم لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،‘ آپ روحی بانو کو جانتے ہیں؟ ’ہاں جی‘ وہ یک زبان خوش ہو کر بولے،آپکے خیال میں وہ کیسی اداکارہ ہیں ’کمال کی اداکارہ ہیں، ان جیسا تو کوئی بھی نہیں‘، انہوں نے پھر یک زبان ہو کر کہا ’ہم نے تو انکا نام نہیں سنا‘ شبانہ جی نے لاپروائی سے کہا ’ شبانہ جی آپکو بھی یہاں بہت کم لوگ جانتے ہیں، بہت سے لوگوں نے آپکا نام بھی نہیں سنا۔ آپکو تو شیام بینیگل جیسا ہدایت کار مل گیا ورنہ بمبے کی فلموں میں تو کبھی بھی آپکا کوئی خاص رول نہیں رہا۔ ہاں آپکا Parallel cinema کمال کا سینما ہے، کیا زبردست فلمیں بنائی ہیں آپ لوگوں نے اور ان فلموں میں آپکی اداکاری کمال کی ہے لیکن یہ تو آپ جانتی ہونگی کہ آپکا یہ متوازی سینما پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں سے متاثر ہو کر وجود میں آیا ہے اوراسکا اعتراف تو خود بھارت والے کرتے ہیں۔ یہی وہ ڈرامے ہیں جن میں سے کئی ڈراموں میں روحی بانو نے کام کیا ہے ’اس پر وہاں بیٹھے لوگوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ شبانہ جی کے چہرے کے تاثرات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اسکے بعد وہ نہیں چاہتیں کہ میں وہاں ایک منٹ بھی اور بیٹھوں اور انکی باتوں میں مخل ہوں۔ میں نے سوچا ’مانیا ہالی اینا ای کافی اے‘ (ابھی اتنا ہی کافی ہے۔) شبانہ جی سے اجازت لی اور میں اور پنڈت پھر اوپر چلے گئے۔جب ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد واپس آئے تو سب لوگ جا چکے تھے۔ عابدہ صاحبہ غزل گا رہی تھیں اور کمرے میں صرف وہ اور شبانہ جی تھیں۔ ہم بھی ادھر آ کر بیٹھ گئے، جب غزل ختم ہوئی تو میں نے عابدہ جی سے کہا، عابدہ جی آپ ہمیں بلھے شاہ سنائیں‘ یک دم شبانہ جی نے کہا، ’بھئی پنجابی تو ہم نہیں سمجھتے،‘ میں نے ہنس کر کہا، دیکھیں عابدہ جی کے گانے کا ایک انداز ہے، وہ جسطرح سندھی ،پنجابی گاتی ہیں وہ کسی اور کے بس میں نہیں۔ وہ کوئی اور ہی دنیا ہے۔ شبانہ جی نے کہا، ’نہیں بھیٔ ہم پنجابی نہیں سنیں گے ہم تو صرف غزلیں سنیں گے۔‘ میں نے تھوڑا چھیڑنے کے موڈ میں کہا، ’میرا تو خیال تھا آپ اور آپکے میاں دونوں کسی قسم کے لسانی تعصب سے ماورا ہیں۔ کیا آپکے میاں جاوید اختر صاحب بھی پنجابی نہیں سمجھتے؟‘ اس پر شبانہ جی نے لپک کر کہا، ’نہیں تو، جادو تو لکھنؤ کے ہیں۔ ‘ میں نے کہا واہ آپ انہیں جادو کہتی ہیں، اور وہ آپکو کیا کہتے ہیں جادوئی؟
اس سے پہلے کہ عابدہ جی بلھے شاہ سنائیں میں یہاں پھر ایک چھوٹی سی بریک لینا چاہتا ہوں،اس واقعہ کے بہت برس بعد فیض صاحب کی یاد میں پاکستان ٹی وی پرایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا، مشاعرے سے پہلے جنرل منیجر کے کمرے میں، ظفر اقبال، شہزاد احمد اور میں ایک کونے میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد کمرے میں ایک کھیس داخل ہوا، جس کے ساتھ ایک آدمی بھی چپکا ہوا تھا۔ مجھے اسے دیکھ کر بچپن کے دنوں میں ایک کھیس بیچنے والا یاد آیا جو اپنے کندھوں پر کچھ کھیس رکھے ہاتھ میں لوہے کا گز لیے گلیوں محلوں میں آواز لگاتا پھرتا تھا، ’کھیس لے لو کھیس‘ اس ’کھیس بردوش‘ کے ہاتھ میں گز تو نہیں تھا لیکن منہ میں اتنی ہی لمبی زبان تھی۔ یہ وہ جادو میاں تھے جو عین میرے سامنے شہزاد احمد کیساتھ بیٹھ گئے، میں نے انکی طرف نہ دیکھا اور نہ ہی ہماری کوئی سلام دعا ہوئی۔ (باقی کل)