اگلے چند دن بعد ہم آزادی کی78ویں سالگرہ منائیں گے،ایک یک طویل دور سے گزرنے کے باوجود ہمارے مسائل آج بھی اسی طرح ہیں جو آزادی کے وقت تھے،ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ہم سے بہت آگے نکل گئے مگر ہمارے حکمرانوں نے کبھی ریاست اور قوم کا نہیں سوچا،یہ وقتی نوعیت کا قومی پیرہن گزشتہ 77برسوں میں ہم نےہرسال پہنا، حقیقت یہ ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی،ہمارے معاشرتی رویے، ہماری ریاست، ہمارے معاشرے اور ریاست کا رشتہ، ہمارا حکمرانی کا اسلوب، ہمارے مختلف النوع آئینی اورسیاسی ادارے، یہ سب ایک پاکستانی قومی وجود کی عکاسی کرنے سے قاصر رہے۔ اختلافات کو گفتگو اور مکالمے کے ذریعے کم یا ختم کرنے کے بجائے، ان کا ماردھاڑ، اور تشدد کے ذریعے حل نکالنے کا رجحان نمایاں رہا۔ ملک دو لخت بھی ہوگیا مگر ہم اس کا جواب تلاش نہیں کرسکے،ہم ایک قوم بننے کی سمت میں سوچ بچار نہیں کرسکے ،یومِ آزادی ہمیں اپنے ملک کی آزادی اور شہداء کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔باکستان کی ترقی و خوشحالی ایک اٹل حقیقت ہے، جو اسکی 24 کروڑ کی آبادی کے عزم و ہمت کا نتیجہ ہے۔پاکستان کا وسیع و عریض تاریخی و ثقافتی ورثہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، یہاں قدرتی ورثے بھی موجود ہیں، جن میں صحرا، سمندر، جھیلیں، بل کھاتے دریا اور بلند و بالا پہاڑ شامل ہیں،مگر ہم آج بھی ان مسائل سے دوچار ہیں جنہیں بہت پہلے ماضی کا حصہ بن جانا چاہئے تھے،ہمارے گھر اس جدید دور میں بھی18,18گھنٹے اندھیروں میں ڈوبے رہتےٍہیں، گیس نہیں آتی، نلکوں میں پانی کے بجائے ہوا آرہی ہے،اسپتالوں میں سہولتوں کے فقدان سے مریض مررہے ہیں،بے روزگاری کے باعث پاکستان کا پڑھا لکھامستقبل بیرون ملک منتقل ہورہا ہے،امن وامان غیر یقینی کا شکار ہے،سڑکیں ٹوٹ پھوٹ سے دوچار،لوٹ مار اور اس میں جان سے جانے کا کھیل جاری ہے،مگر اس کے باوجود قوم ملک کی خاطر ایک اور متحد ہے،بھارت کے خلاف حالیہ معرکہ حق میں افواج پاکستان کے شاندار اور حیرت انگیز کارناموں نے منقسم قوم کو یکجا کردیا،اس ملک نے کئی جنگیں دیکھیں،دہشت گردی نے ملک کو جانی اور مالی طور پر جو نقصانات پہنچائے اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے،جس نے ملک کو دیوالیہ ہونےکے دہانے پر پہنچادیا،مگر یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ جو ہمیں پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی دھمکیاں دے رہے تھے وہ آج ہم سے تجارت کے متلاشی ہیں،یہ سب قوم اور افواج پاکستان کی طاقت سے ممکن ہوا، ایران ،اسرائیل حالیہ جنگ کے بعدایران کے صدر مسعود پزشکیان کے دو روزہ دورہ پاکستان میںپاک ایران وزارتی سطح کے مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان مستقبل کے حوالے سے بڑی اہمیت کے کئی معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں جن پر عملدرآمد سے باہمی تعاون، اخوت اور دوستی کے لازوال رشتے مزید مضبوط ہو ں گے،پاکستان نے اسرائیل کیخلاف جنگ میں کھل کر ایران کی حمایت کی،قطر اور چین بھی پاکستان کے خاصے نزدیک ہیں، ترکیہ سے بھی تعلقات مضبوط ہیں ،یہ سب کچھ موجودہ حکومت کی شان دار خارجہ پالیسی کی بدولت ممکن ہوا ہے،مگر پھر بھی بعض سیاسی رہنما ملک میں اس وقت انتشار پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں،پانچ اگست کو جب پوری قوم کشمیری بھائیوں سے یک جہتی کا اظہار کررہی تھی یہ ملک کے مختلف شہروں میں انتشاراور افراتفری پھیلانے کی ناکام کوشش کررہے تھے، یہ عناصربلوچستان اور کے پی میں لگی آگ کو بجھانے کے بجائے اس پر تیل چھڑک رہے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ جمہوریت کی روشن خیالی ہی معاشروں کو مکالمے کے کلچر سے روشناس کراتی ، اختلافات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کا راستہ دکھاتی ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کو وطن کی خاطر اسی روش کو اختیار کرنا چاہئے، احتجاج اور دھرنے کی سیاست کا دور گزر چکا ہے،یومِ آزادی ہمیں اپنے ملک کی آزادی اور شہداء کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دن ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے۔ جشن آزادی پر سات دہائیوں سے اپنی آزادی اور حق ِخود ارادیت کیلئے جدوجہد کرنے والے اپنے کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ ہم اپنی آنے والی نئی نسل کو قیام پاکستان کی الم ناک داستانوں ، دل خراش واقعات اور جاں گداز حالات کے پس منظر کے اہداف و مقاصد سے بھی آگہی دیں کہ ہمارے اکابر نے آگ و خون کے دریا عبور کرکے حصولِ پاکستان کی نعمت کو یقینی بنایا پاکستان کیلئے انگنت قربانیاں دینے والے تحریک ِپاکستان کے رہنماؤں، کارکنان اور اپنے آباؤ اجداد کو خراج ِعقیدت پیش کرتے ہوئےہمیں وطن کو عظیم سے عظیم تر بنانے کا عہد بھی کرنا ہوگا، اسی میں ہماری بقا ہے۔