’’آخری قسط‘‘
سرمد صہبائی بھارت کے دو معروف فنکاروں جاوید اختر اور شبانہ جی ! کے پاکستان کے بارے میں متعصبانہ رویوں کا حساب جوں جوں چکتا کرتے چلے گئے،قارئین کی دلچسپی بھی بڑھتی چلی گئی۔ لیجیے سرمد صہبائی کے مضمون کی آج آخری قسط پیش ہے۔وہ لکھتے ہیں’’جادو میاں کو میں نے پھر ایک ٹی وی کے پروگرام میں دیکھا جس میں پہلے انہوں نے اپنی شراب نوشی کی داستان سنائی اور پھر کہا ہم نے شراب نوشی سے توبہ کرلی کیونکہ انکے ذاتی تجربے کے مطابق آدمی شراب پی کر گدھا بن جاتا ہے۔سچ کہتے ہیں نشے کی حالت میں انسان کی اصلیت باہر آ جاتی ہے۔ اب ظاہر ہے اگر کسی انسان کی اصلیت گدھا ہے تو نشے کی حالت میں اس سے کوئی ناچتا ہوا مور تو نہیں نکلے گا،پھر جادو میاں اور انکی بیگم نے فیض صاحب کیساتھ اپنے تعلقات کی جھوٹی سچی داستانیں سنائیں، شبانہ جی نے تو کہا کہ انقلاب کی گھٹی ا نکو فیض صاحب نے گود میں بٹھا کر دی تھی۔ جادو میاں نے فیض صاحب کے خاندان پر کالا جادو کر دیا۔ انہوں نے بھی کمال دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جادو میاں کو بڑی عزت اور احترام سے پاکستان آنے کی دعوت دی۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں انکو ٹھہرایا، انکے اعزاز میں دعوتیں کیں جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ جادو میاں جہنم میں جانے کی بجائے بار بار فیض میلے کی دعوت پر پاکستان آتے رہے۔ (یاد رہے کہ ابھی کچھ دن پہلے انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر انہیں پاکستان یا جہنم میں جانے کی پیشکش کی جائے تو وہ جہنم جانا پسند فرمائیں گے۔ )محمد علی جناح نے کہا تھا کہ جو مسلمان بھارت میں رہ گئے ہیں وہ بھارت سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے رہیں۔ جادو صاحب اپنے آپ کو سیکولر، لبرل اور تعصبات سے منزہ عالمی امن اور انسانیت کے علمبردار کہتے ہیں۔ لیکن بھارت کی وفاداری کے ثبوت میں بار بار پاکستان دشمنی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اگرچہ وہ خود کو ہر قسم کے مذہب کیخلاف سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اور انکی بیگم کہتے ہیں کہ انہیں بمبے میں مسلمان ہونے کیوجہ سے کرائے پر گھر نہیں ملتا۔ حال ہی میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کی جنگ میں نعرہ لگایا، ’اب آر پار ہوجانا چاہیے‘ ۔ امن پسندی کے بجائے انہوں نےخونریزی کی حمایت کی، انہوں نے مودی اور گودی میڈیا کے بیانیے میں گراں قدر اضافہ کرتے ہوئے اسے مزید بڑھاوا دیا۔ شاید انکی اس پاکستان دشمنی کے عوض اب انہیں بمبئی میں کرائے پر گھر مل جائے۔چلیے کمرشل بریک ختم ہوئی۔ اب ہم واپس عابدہ صاحبہ کی محفل میں چلتے ہیں۔ میری فرمائش پر عابدہ جی نے بلھے شاہ کا کلام گانا شروع کیا، شاید وہ بھی غزلوں سے اپنی جان چھڑانا چاہتی تھیں، عابدہ جی نے کافی ’بلھے نوں پلایا کر، راتیں صبح شام‘ جب گائی تو کمرے کی چھت اڑ گئی، در و دیوار نہ جانے کہاں غائب ہو گئے، ہمارا وجود بھی کہیں تحلیل ہو گیا، صرف عابدہ پروین کی آواز تھی جو چاروں طرف گونج رہی تھی، اسوقت صبح کے چار بج رہے تھے۔ اس گانے کے بعد محفل ختم ہو گئی۔ شبانہ جی نے واپس اپنے ہوٹل ہمارے ساتھ جانا تھا۔ چنانچہ ہم نے رخصت لی اورگاڑی میں بیٹھ گئے۔ شبانہ جی کا موڈ کافی بگڑا ہوا تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھیں اور کار سے باہر صبح طلوع ہوتے دیکھ رہی تھیں۔ میں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا، ’شبانہ جی آپ کیا ناراض حسیناؤں کیطرح بیٹھی ہوئی ہیں؟‘ اس پر انہوں نے ذرا ایک ادا سے کہا، ’بس آپ سے بات کرنے کو من نہیں چاہ رہا‘ ’اوہو کیوں؟‘آپ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں ’ ارے یہ تو آپ نے الٹی بات کردی، یہ تو آپ ہیں جو اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتی ہیں‘ میں نے ہنس کر کہا ’but i am a star‘ ” مگر میں تو ایک اسٹار ہوں۔ ’انہوں نے ذرا شرارتی لہجے میں فرمایا۔ غالباً انہوں نے میرے ساتھ صلح کا ارادہ باندھ لیا تھا۔ لیکن میرا ابھی تک‘ مانیا گل ودھ گئی اے، والا موڈ چل رہا تھا ’یار پنڈت یہاں تو بہت سٹار ڈسٹ ہے۔ کار کے شیشے کھولو، میرا دم گھٹ رہا ہے۔‘ میں نے بھی شرارتاً کہا، اور پھر شبانہ جی ویسے سٹار تو مادھوری ڈکشٹ ہے، ریکھا ہے، آپ تو آرٹسٹ ہیں، ایک سوشلسٹ ایکٹوسٹ ۔پنڈت نے پریشان ہو کر مجھ سے کہا، ’یار تم کیا شبانہ جی سے بحث کر رہے ہو، ان کو کوئی رول شول دو‘اس پر شبانہ جی کا بس چلتا تو وہ کار سے چھلانگ لگا دیتیں ۔ میں نے انکا موڈ بدلنے کیلئے کہا، ’چلیں شبانہ جی ہم آپکو ساحل سمندر سے Sunrise کا منظر دکھاتے ہیں۔‘ ’مجھے کوئی ضرورت نہیں کسی ساحل سمندر پر کوئی منظر ونظر دیکھنے کی، میری خود جوہو بیچ پر دو Huts ہیں۔ ’ ’اوہو، شبانہ جی آپ تو ایک Propertyles معاشرے کیلئے جد و جہد کر رہی ہیں، یہ دو ہٹس کی پراپرٹی کہاں سے آ گئی۔ ’اس پر وہ اور برہم ہوئیں مگر کوئی جواب نہ دیا، وہ ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل میں ٹھہری ہوئی تھیں، وہاں پہنچنے تک سارے سفر میں ایک غصے بھری خاموشی طاری رہی۔ جب ہم ہوٹل میں داخل ہوئے تو میں نے ہوٹل کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’شبانہ جی آپ اس شہر کے سلمز کے بارے میں پوچھ رہی تھیں، یہ ہمارے سلمز میں سے ایک سلم ہے۔‘شبانہ جی تیزی سے کار سے اتریں اور زور سے دروازہ بند کیا ، ہوٹل کے برآمدے میں وہ ایڑیاں پٹخاتی ہوئی چلی جا رہی تھیں۔ انکی اونچی ایڑیوں کی ’پٹخ‘ انکے جانے کے بعد بھی دیر تک سنائی دیتی رہی۔دوسرے دن جب ہم پنڈت کے گھر شام کو جمع ہوئے تو جمیل نے کہا، ’سرمد یار تم نے شبانہ کو کیا کہہ دیا، وہ بڑی غصے میں تھی۔‘اچھا، کیا کہا اسنے؟اسنے کہا ’تم نے مجھے یہ کس شخص کیساتھ بھیج دیا تھا۔ ‘پھر تم نے کیا کہا، میں نے جمیل سے پوچھا،میں نے کہا، ’تم کیا سکول کے بچوں کی طرح مجھے شکایتیں لگا رہی ہو، تم کوئی چھوٹی بچی تو نہیں، تمہیں اسکے ساتھ خود ڈیل کرنا چاہیے تھا۔ ‘’میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ میں شبانہ سے خاص طور پر نہیں ملنا چاہتا، اسلئے کہ جب کوئی ایسے مشہور لوگوں کو خاص طور پر ملنے کی خواہش کرتا ہے تو ان میں سے اکثر یہی سمجھتے ہیں کہ انکو ملنے والا کوئی انکا اندھا بہرہ فین یعنی چیلا چانٹا ہے جو انکے آٹوگراف کا بھوکا ہے یا وہ اپنی تصویر انکے ساتھ کھنچوانا چاہتا ہے اور جو انکی ہر اچھی بری بات کو صحیفہ سمجھ کر چومتا پھرے گا۔ شبانہ جی سے بھی اس رات یہی غلطی سرزد ہو گئی تھی۔ ایسے لوگوں پر کوئی ہلکی سی بھی تنقید کر دے تو وہ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ ‘میں دو تین دفعہ بھارت گیا ہوں جہاں کبھی کسی جگہ پر جادو اور شبانہ بھی تھے، اور ایک دو دفعہ پاکستان میں بھی ہمارا ایک دوسرے سے سامنا ہوا ہے لیکن اس واقعے کے بعد نہ میں شبانہ اور جادو کو پہچانتا ہوں اور نہ وہ مجھے پہچانتے ہیں، وہ مجھے اسلئے نہیں پہچانتے کہ وہ مجھے خوب پہچانتے ہیں اور میں انکو اس لیے نہیں پہچانتا کہ میں انکو پہچاننے سے زیادہ پہچانتا ہوں۔چور کو پڑ گئے مور فیض صاحب سے پہلی ملاقات کا ذکر بیگم جادو اس طرح کرتی ہیں کہ فیض انکے والد سے ملنے آئے تو یہ کہنے لگیں میں آپکی بہت بڑی فین ہوں۔ فیض نے پوچھا میرا کون سا شعر آپکو سب سے اچھا لگتا ہے۔شبانہ بولیں...وہ جو ہے ناں...یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے!فیض مسکرا کر بولے لیکن کلیات میر میں نے نہیں لکھی اور اس بی بی کے طوطے اڑگئے۔اس زمانے میں انڈیا سے آنیوالے لگ بھگ سبھی لوگ’’ایک حسرت‘‘سے پاکستان میں بکنے والے غیرملکی برانڈ اور گاڑیوں کو دیکھ کر کچھ جلتے تھے کچھ رشک کرتے اور کچھ حسد کرتے تھے۔شبانہ جی اگر میرے ہاتھ لگ جاتیں تو میں انکا نام جادو ئی بیگم سے بی جمالو رکھ دیتا۔وہ خاتون جو جل ککڑی ہوتی ہے اور کسی کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتی ۔کبھی اب بھی آپ یا کسی کا ٹاکرا بی جمالو سے ہوجائے تو بصد احترام اتنا پوچھ لیجئے گا کہ اقوام متحدہ کی آپ سفیر برائے بہبود آبادی بنی ہوئی ہیں جبکہ آپ تو خود بے اولاد ہیں!۔