سر سید احمد خان نے مقامی دانش کی وجہ سے اسے پنجاب کا خطّہ یونان قرار دیا، میرے پرکھوں کے دیس، گجرات میں دریائے چناب کے کنارے پر مشہور رومانوی قصّے سوہنی مہینوال نے جنم لیا، سوہنی گھڑے پر دریا پار کر کے مہینوال سے ملنے جایا کرتی تھی مگر پھر ایک دن اس نے کچّے گھڑے پردریا پار جانے کی کوشش کی تو بیچ دریا کچا گھڑا کُھر گیا۔ سوہنی اور گھڑے کی کچی مٹی دونوں دریاکے سپرد ہو گئے۔ اسی قصّے کو حال ہی میں کوک اسٹوڈیو میںعلی حمزہ نے بہت خوبصورتی سے منظوم کیا ہے رومانوی کہانی سے ماخوذ یہ شعر تو بالکل آج کی سیاست پر صادق آتا ہے۔
کچّیاں تے رکھئے نا،امید پاردی
کچّیاں دا ہوندا، کچّا انجام نی
علاقائی رومانوی کہانیاں ایک وقت بعددیو مالائی استعارے بن جاتی ہیں کیونکہ رومان، خوشی، غم، اداسی ،وفاداری اور بے وفائی تب بھی ایک حقیقت تھی اور آج جب زمانہ بدل چکا ہے تب بھی یہ انسانی کیفیات نہیں بدلیں ،اب بھی محبت کا غم ہے اوراسکے ساتھ اور بھی غم شریک ہو گئے ہیں۔ سیاست بھی ایک رومانس ہے اور یہ رومانس بھی صدیوں سے چلا آرہا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس رومانس میں بھی بے وفائی، بے اعتنائی، ہجر،وصال ، خوشی اور غم سب سے گزرنا پڑتا ہے۔ حضرت انسان پید ا ہوتا ہے تو بقول نوبل انعام یافتہ شاعر ڈبلیو بی ییٹس (1939-1865) پہلے ہی سانس سے سیاست شروع کر دیتا ہے کیونکہ اسے ہوا نہ ملے تو وہ سانس نہیں لے سکتا۔ کبھی صرف سانس لینے کی سیاست اور کبھی سکھ کا سانس لینے کیلئے سیاست عمر بھر جاری رہتی ہے۔ کوئی لاکھ انکار کرے کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اسے زندہ رہنے کیلئے جو کرنا پڑتا ہےوہی تو سیاست ہے ،جو زندہ ہے وہ سیاست سے ہی زندہ اور زندگی کی مزید بہتری کیلئےاسے مزید سیاست کی ضرورت ہے۔پاکستانی سیاست سوہنی کےکچے گھڑے کی طرح کچی مٹی کی بنی ہوئی ہے اور سیاست کا یہ گھڑا سیلابی چناب میں غوطے کھا رہا ہے۔ دیوار پر لکھی تحریر کو نہ سیاسی حکومت نے پڑھا اور نہ اس کی اپوزیشن نے۔ بار بار تاریخ کا یہ سبق انہیں یاد کروایا جاتا ہے کہ اگر سیاسی مصالحت نہ ہوئی تو ایک نہ ایک دن دھماکہ ہو کر رہے گا مگر تینوں طرف کے شکروں نے مصالحت کی ہر آواز کو ٹھکرایا۔ اپوزیشن کے عاقبت نااندیشوں نے ملکی راستے کو ہموار کرنے کیلئے مصالحت نہیں انقلاب کا پرچار کیا۔ نہ انقلاب آسکا اور نہ ہی مصالحت کی طرف قدم بڑھ سکے یوں اعتماد کا بحران بڑھتا رہا۔ نفرت پھیلتی رہی۔ نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف والے سمجھتے ہیں کہ ہم نے صلح نہ کر کے مقبولیت بھی قائم رکھی ہے اور مخالفوں کی حکومت کو قانونی جواز بھی فراہم نہیں کیا اس لئے وہ کمزور ہو کر گر جائیں گے تو تخت ہمیں مل جائے گا۔دوسری طرف حکومت کے شکرے سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف اور مقتدرہ میں ٹھنی ہوئی ہے ہم مصالحت میں کیوں پڑیں کہ مقتدرہ بھی ہم سے ناراض ہوجائے ، ہم کیوں ’آبیل مجھے مار‘ کے حالات پیدا کریں۔ تیسری طرف مفاد پرست ہیں جو مصالحت چاہتےہی نہیں کہ ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔گو یا ان تینوں نے خود کشی کی طرف سفر جاری رکھا ہوا ہےاور جس طرح محمود غزنوی سے شکست کے بعد لاہور کے حاکم جے پال نے اجتماعی خود کشی کا اہتمام کیا تھا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اپوزیشن کی اسٹریٹ پاور کا ڈنک نکل چکا، پارلیمان میں شور شرابے کے قابل بھی نہیں رہی، آئے روز نئی سزائیں ہو رہی ہیں۔ خان صاحب روحانی حکیم سے فیض حاصل کرتے کرتے حقائق اور منطق کی دنیا سے کہیں دورکسی جادوئی اثر میں ہیں۔ بہنیں ہوں یا نامزد قیادت کسی کے پاس فیصلے کا اختیار نہیں تحریک انصاف میں ایک ہی کامیاب سیاستدان ہے اور وہ ہے گنڈاپور۔ باقی سب ایرے غیرے ہیں۔ تحریک انصاف کو زیرو کرنا حکومت اور مقتدرہ کا مشترکہ ہدف تھا اب جب تحریک انصاف بقول مقتدرہ آخری سانس لے رہی ہے تو پھر حکومت کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت کیا ہے ہدف پورا ہو گیا اب حکومت کا جواز ہی نہیں رہا۔ بھٹو کو پھانسی دیکر جنرل ضیاء الحق نے قومی اتحاد کی حکومت کی بھی چھٹی کروادی تھی جب تک بھٹو کو رخصت نہیں کیا گیا قومی اتحاد اور جنرل ضیاء اتحادی تھے، مقصد پورا ہو گیا تو اتحاد بھی ٹوٹ گیا۔ اب بھی بالکل وہی صورتحال ہے حکومت اور ایوزیشن دونوں کو آخری دموں کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ مصالحت نہ کرنے کا یہی انجام ہوگا ،پہلے سے اندازہ تھا۔ اب جب نتیجہ آئے گا تو پھر مصالحت نہ کرنے والے منہ چھپاتے پھریں گے تاریخ بار بار ان سے سوال کرے گی کہ آپ مل کر آئین، جمہوریت اور سیاست کو بچا سکتے تھے مگر آپکو اپنی نادانیوں اور ذاتی نفرتوں کی وجہ سے دیوار پر صاف لکھا ہوا بھی نظر نہ آیا۔ مصالحت نہ ہونے کی وجہ سے اگر پردہ کھینچ دیا گیا ۔آئین، جمہوریت اور سیاست کی بجائے طاقت، آمریت اور عملیت آگئی تو 75 برسوں کے سفرِرائیگاں کے ولن کون ہوں گے ؟ یہی مصالحت کی مخالفت کرنیوالے عاقبت نا اندیش!!سوہنی کے کچے گھڑے کا انجام بھی کچّا ہونا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ کچّے کبھی بیڑہ پار نہیں لگاتے ان سے پار لگانے کی امید ہی عبث ہے۔ سیاسی پارٹیاں، سوہنی ہیں کہ لوگ انہیں پسند کرتے ہیں مگر ان کا رویّہ بھی سوہنی جیسا ہے کچے گھڑے پر سواری کرتےہوئے ان کا خیال ہے کہ دریا پار پہنچ جائیںگی، دریائے چناب بھی ہمارے ملک کی طرح کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا ہے۔ جب بھی سیلاب آتا ہے دریائے چناب کی طغیانی تباہی لے آتی ہے۔ حکومت کی کارکردگی اور اپوزیشن سے ناراضی دونوں نے مل کر مجموعی تاثر یہ قائم کر دیا ہے کہ یہ نظام اب اس طرح سے چلنا مشکل ہے کچھ شرارتی عناصر تو سیاست اور مقتدرہ کے درمیان خلیج کو بڑھا رہے ہیں اور کچھ آئے روز اٹھنے والے سوالات بھی صورتحال کو مزید کشیدہ کررہے ہیں۔ ان سوالوں میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ جب آپ کو علم ہے کہ کرپشن کون کر رہا ہے تو آپ رو کتے کیوں نہیں ؟ یہ بھی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آپ آکرچیزیں ٹھیک کیوں نہیں کرتے؟یاد رہے کہ اصغر خان نے بدنام زمانہ خط لکھ کر جنرل ضیاء کو مداخلت کی دعوت دی تھی پھر سے یار لوگوں نے گیٹ نمبر 4کو استعارہ بنا کر اس کے طواف شروع کر دیئےہیں آج کل پھر سے کبھی عوامی مطالبے، کبھی سوال، کبھی تجویز اور کبھی واحد راستہ کے طور پر سیاست کو گول کرنے کا راستہ اپنانے کی تجویز دی جارہی ہے اس دروازے میں صرف داخلہ ہوتا ہے باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، اس راستے کی بھول بھلیاں ہر مسافر کے گلے کی ہڈی بن جاتی ہیں۔ آئین اور جمہوریت ہی اس ملک کا واحد مستقبل ہے صرف اور صرف یہی راستہ خوشحالی اور آزادی کا ضامن ہے باقی سب راستے کچے گھڑے ہیں جو بیچ دریا میں سوہنی کو ڈبو دیں گے۔