• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا اس وقت میری عمر غالباً سترہ سال تھی اور طنز و مزاح اس وقت بھی میرے مزاج میں شامل تھا۔ان دنوں یہ حکم جاری کیا گیا کہ فنکاروں کی عزت کی جانا ضروری ہے اور فنکاروںمیں ریچھ اور بندر کا تماشا دکھانے والوں کے علاؤہ قوالوں کو بھی شامل کیا گیا تھا اور یہ کوئی ایسا حکم نہیں تھا جس پر تنقید کی جاتی مگر میری رگ شرارت پھڑکی اور میں نے ایک مزاحیہ نظم مولانا کوثر نیازی کے ہفت روزہ’’شباب‘‘میں اشاعت کیلئے ارسال کی تھی۔اس کا ’’مطلع‘‘ تھا۔

ان سےملئے حضرت استاد کلن خاں ہیں یہ

علم موسیقی میں مثلِ نیر تاباں ہیں یہ

حکومت کے جاری کردہ حکم کی طرح یہ نظم بھی بے ضرر تھی مگر ایک رات ہمارے گھر کی گھنٹی بجی ابا جی باہر نکلے تو دیکھا مسلح پولیس باہر کھڑی تھی۔انہوں نے ابا جی ؒسے کہا مولانا،عطاء الحق قاسمی کو باہر بھیجیں ۔ابا جیؒ پریشان ہوئے! اندر آئے اور پھر مجھے مخاطب کر کے کہا’’تم نے پھر کوئی چن چڑھایا ہے۔اب پولیس گھر آنے لگی ہے باہر جاؤ پولیس تمہارا انتظار کر رہی ہے‘‘۔میں پریشان ہو گیا کہ میں نے تو کوئی ایسی حرکت نہیں کی تھی کہ پولیس پہنچ جاتی ۔میں ابا جی کے ساتھ باہر آیا ،تو مجھے دیکھ کر انہوں نے ابا جیؒ سے کہا ہم نے آپ سے کہا تھا ’’آپ مولانا عطاء الحق قاسمی کو باہر بھیجیں آپ اس بچے کو لے آئے ہیں‘‘ ابا جیؒنے کہا’’یہی مردود مولانا عطاء الحق قاسمی ہے‘‘پولیس افسر نے کہا انہوں نے ایک نظم حکومت کیخلاف لکھی ہے ۔وہ کسی بچے کی نہیں بڑی عمر کے شخص کی لگتی تھی! پھر انہوں نے مجھے گاڑی میں بٹھایا اور کوٹ لکھپت جا کر نیچے اتار دیا اور کہا برخوردار آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔اس وقت رات کے گیارہ بجے تھے میری جیب میں کوئی پیسہ دھیلہ نہیں تھا ۔چنانچہ میں پیدل ماڈل ٹاؤن کی طرف چل دیا جب گھر پہنچا صبح کے چار بج رہے تھے اور ابا جی سخت پریشانی کے عالم میں گھر سے باہر ٹہل رہے تھے۔پولیس نے مجھ پر کوئی تشدد نہیں کیا تھا مگر ابا جی نے ان کا فریضہ خود انجام دے دیا۔

فی الحال چار رکھ

نوائے وقت میں ایک دفعہ تنخواہوں میں تاخیر ہونے لگی’’مالی امداد‘‘کیلئے کیشیئر صاحب کے پاس جاتے تو وہ اپنی میز کی اوپر والی دو درازیں کھول کے دکھا تے کہ دیکھ لو کوئی پیسہ دھیلہ نہیں ،وہ تیسری دراز نہیں کھولتے تھے کہ پیسے اس میں ہوتے تھے۔اسٹاف میں بہت بے چینی پھیلی ہوئی تھی ۔میں نے چند شعر لکھ کر اس کی کاپیاں ان سب کے علاؤہ مجید نظامی صاحب کو بھی بھیج دیںاشعار یہ تھے۔

اک روز قرض خواہوں کو مشکل سے ٹال کر

دفتر جو پہنچا سب نے دی تنخواہ کی خبر

تنخواہ لینے پہنچا تو بولا یہ کیشیئر

بنتے ہیں چار سو تیرے فی الحال چار ر کھ

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

تمام شعر یاد نہیں رہے بہرحال اس کا فائدہ یہ ہوا کہ تنخواہ وقت پر ملنے لگی۔

نکاح نامہ

ایک دفعہ اقبال ٹاؤن والے گھر میں رات کے بارہ بجے گھر کی بیل بجی میں جاگ رہا تھا دیکھا تو بائیں بازو کے نامور دانشور اور انکی بیگم زیبی پولیس کی ’’حراست‘‘ میں ہیں۔میں پریشان ہو گیا! حسن عباس زیدی اور میرا گھر ساتھ ساتھ تھا۔پولیس نے مجھ سے پوچھا ’’کیا آپ تصدیق کرتے ہیں کہ یہ دونوں میاں بیوی ہیں‘‘۔اس سوال پر میری ہنسی نکل گئی ۔میں نے کہا آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں ۔بولا یہ دونوںاتنی رات گئے مون مارکیٹ کے ایک کونے میں بیٹھے رازونیاز کر رہے تھے ۔میں ان کے پاس گیا اور میں نے کہا تم لوگ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو۔انھوں نے جواب دیا ہم میاں بیوی ہیں۔میں نے کہا اگر ایسا ہے تو نکاح نامہ دکھاؤ۔انہوں نے کہا ہم نکاح نامہ ساتھ تھوڑی لیے پھرتے ہیں۔پھر میں نے کوئی گواہی مانگی اور آپ کی گواہی دلانے کیلئے اب آپ کے پاس لےآئے ہیں۔میں نے کہا اے فرض شناس افسر! یہ میرے گھر کیساتھ والا گھر انکا ہے اور ہم برسوں سے انکے ہمسائے ہیں۔تب حسن عباس زیدی اور زیبی کی جان چھوٹی۔اب جب کبھی ان سے ملاقات ہوتی ہے میں انہیںکہتا ہوں زیدی صاحب!نکاح نامہ دکھائیں۔

لونڈا غریب آ گیا بڑھیا کے دام میں

اورینٹل کالج میں دوران تعلیم میرے ایک بیس سالہ کلاس فیلو کی شادی ایک چالیس سالہ خاتون سے ہوئی ،اس نے مجھے سہرا لکھنے کو کہا میں نے دس بارہ شعر کہے مگر ان میں سے صرف تین چار شعر اشاعت کے قابل ہیں وہ سن لیں اور ہاں دولہا کا نام یوسف تھا۔

کل شب سنا ہے میں نے عجب واقعہ ہوا

یوسف ہمارا ہاتھ زلیخا کے لگ گیا

ساری ہی نیکیاں گئیں اس کی حرام میں

لونڈا غریب آ گیا بڑھیا کے دام میں

مادام سرد و گرم زمانہ چشیدہ ہے

مسٹر ہنوز ایک گل نو فریدہ ہے

آج یوم پاکستان کے آخر میں یوم پاکستان پہ میرے چند اشعار سنتے جائیں۔

میں ہوں پاکستان ،میں سب کے دل میں زندہ ہوں

میں ماضی میں،حال میں ،مستقبل میں زندہ ہوں

مجھ کو نمو سے روک نہیں سکتی ہے کوئی رت

میں جو سدا بہار ہوں آب و گِل میں زندہ ہوں

میں ہر پھول میں ہر پتے میں ہر ڈالی میں رقصاں

میں ہوں جان محفل ہر محفل میں زندہ ہوں

حسن و عشق کی گھاتوں میں بھی میرا نور ظہور

گورے گورے مکھڑوں کے ہر تل میں زندہ ہوں

میرے مصور ،میرے شاعر،میرے موسیقار

وہ میرے ہیں اور میں ان کے دل میں زندہ ہوں

میرے فیض،ندیم،فرازاور میرے ناصر جی

میں اقبال کے پیاروں کی محفل میں زندہ ہوں

پیار کی میٹھی تانیں میرے کانوں میں ہر دم

میں گیتوں ،سنگیتوں کے ساحل میں زندہ ہوں

تن آسانی چھوڑو عطاجی مجھ سے ملنے آؤ

میں ہمت کی،عزم کی ہر منزل میں زندہ ہوں

تازہ ترین