(گزشتہ سے پیوستہ)
میں جب طالب علم تھا اور ظاہر ہے بس پر کالج جایا کرتا تھا ۔ایک دن بس اچھرہ کے اسٹاپ پر رکی تو دس بیس مسافر بس میں سوار ہوئے بس پہلے ہی مسافروں سے بھری ہوئی تھی اب نئے مسافروں کے پاس کھڑا رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ،ان میں سے ایک مسافر جس نے خاکی رنگ کی شرٹ اور خاکی رنگ کی ہی پتلون پہنی ہوئی تھی،سر پر ٹوپی تھی،سفید داڑھی تھی ،عمر ستر برس سے زیادہ لگتی تھی وہ آہستہ آہستہ جو آخری نشستیں تھیں سرکتے سرکتے اس نشست کے قریب پہنچ گئے قریب آئے تو میں نے انہیں پہچان لیا یہ علامہ مشرقی تھے خاکسار تحریک کے سربراہ کسی زمانے میں یہ بہت مضبوط تحریک تھی ۔یہ قیام پاکستان سے بہت پہلے کی بات ہے اس کے ارکان خاکسار کہلاتے تھے اور ان کا یونیفارم وہی تھا جس میں اس وقت علامہ مشرقی ملبوس نظر آ رہے تھے۔خاکسار سڑکوں پر پریڈ کرتے نظرآتے ان کے کاندھوں پر بیلچے ہوتے اور پریڈ کے دوران چپ راست چپ راست کہتے ،چپ راست کا مطلب لیفٹ رائٹ ہوتا تھا- بہرحال میں نے علامہ مشرقی کو اپنے قریب دیکھا تو میں اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔ انہیں سلام کیا اور ان سے عرض کی کہ وہ میری نشست پر بیٹھ جائیں۔ انہوں نے کہا شکریہ ،لیکن یہ میرے اصول کے خلاف ہے۔ میں کسی دوسرے کی نشست پر بیٹھوں ۔میں بھی کھڑا رہا کہ وہ میری آفر قبول کریں گے۔ میں نے کہا علامہ صاحب میں یوں کرتا ہوں کہ اپنی نشست میں آپ کے لئے بھی جگہ بناؤں،چنانچہ تھوڑا سا میں اور تھوڑا سا دوسرا مسافر تھوڑا تھوڑا سرکے اور علامہ صاحب سے کہا اب آپ تشریف رکھیں انہوں نے کہا اب کسی کی حق تلفی نہیں ہوئی اور میرے برابر میں بیٹھ گئے انہوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا میں نے کہا عطاء الحق قاسمی ،بولے بہاء الحق قاسمی سے آپ کا کوئی رشتہ ہے میں نے کہا وہ میرے والد ہیں۔کہنے لگے انہیں میرا سلام کہیے گا۔یہ سن کر میں دل ہی دل میں ہنسا کیونکہ ابا جی ان دنوں پندرہ روزہ ’’ضیاء السلام‘‘ نکالتے تھے اور ہر شمارے میں علامہ صاحب کی ایسی کی تیسی کرتے تھے۔بہرحال یہ اپنے وقت کی ایک بہت بڑی تنظیم تھی اور آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ن۔م۔راشد اور سیف الدین سیف بھی خاکسار تھے اور خاکی رنگ کی وردی میں کاندھوں پر بیلچہ رکھے سڑکوں پر چپ راست ،چپ راست کرتے نظر آتے تھے۔ اس تحریک کا مقصد اسلام کی نشاط ثانیہ تھا!
میرے اساتذہ
اسکول کے، زمانے میں پھر کالج کے زمانے میں پھر اس کے بعد یونیورسٹی کے زمانے میں مجھے ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ استاد ملے۔ مگر کچھ ایسے تھے جو بہت عجیب وغریب تھے اسکول میں ایک استاد تھے ان کے آنے پہ کلاس میں شور شرابا کی فضا پیدا ہو جاتی تھی۔ وہ آتے ہی جو اسٹوڈنٹ انہیں پہلے نظر آتا اسے خوب پھینٹی لگاتے۔ وہ کہتا سر میں شور نہیں کر رہا تھا یہ جو میرے ساتھ بیٹھا ہے یہ شور مچا رہا تھا۔ ماسٹر صاحب اس پر پل پڑتےاور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا کہ ہر لڑکا مار کھانے کے بعد دوسرے کا نام لے لیتا تھا اور یوں پوری کلاس پہ ’’تشدد‘‘ کے بعد ان کا پیریڈ ختم ہو جاتا اور ان کی شلوار ہمیشہ خون سے بھری ہوتی ظاہر ہے اس کی وجہ ایک بیماری تھی جسے چھپانے کے لیے وہ پیمپر باندھ کر آ سکتے تھے مگر انہوں نے یہ تکلف کبھی نہیں کیا ۔کالج میں میرے ایک استاد ،شاعر بھی تھے اور باڈی بلڈر بھی چنانچہ انہوں نے اپنے کمرے کی ایک دیوار پر غالب اور اس کے سامنے والی دیوار پر مسٹر یونیورس کی تصویر لگائی ہوئی تھی۔کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد میں اسی کالج میں لیکچرر ہو گیا،ایک دن بہت موڈ میں غالب کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے ’’اوئے غالبا!نا ہویا توں میرے زمانے وچ ،میرے ہتھ وچ ہتھ پیندے تے تینوں پتہ لگدا کہ شاعری کی ہوندی اے ’’( اوئے غالب! نہ ہوئے تم میرے زمانے میں،تجھ سے مقابلہ ہوتا تو تمہیں پتہ چلتا شاعری کسے کہتے ہیں)میں نے یہ سن کر کہا۔‘‘ آپ ایک شریف آدمی کو چیلنج کر رہے ہیں چیلنج کرنا ہے تو مسٹر یونیورس کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے کریں۔‘‘
جب کوئی اجنبی انہیں ملنے آتا تو دروازہ ناک کرتا پروفیسر صاحب ایک دم اپنی کرسی سے اٹھتے اور دونوں ہاتھوں میں ڈمبل اٹھا کر کہتے ’’یس پلیز‘‘ اسکے بعد کسی کو کیا شک رہ جاتا تھا کہ استاد محترم صرف شاعر نہیں بلکہ باڈی بلڈر بھی ہیں۔ ایک واقعہ میں نے ایک دوست سے سنا تھا کہ جنرل ایوب خاں نے 65ء کی جنگ میں جو تقریر کی وہ عمومی طور پر بہت پسند کی گئی۔ راوی نے بتایا کہ اگلے روز پروفیسر صاحب سینہ تان کے ہر ایک کو بتاتے تھے کہ ’’ایوب خاں نے یہ تقریر میری ایف اے کی گائیڈ سے لی ہے‘‘۔ (باقی کل)