• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں انڈیا پہلی مرتبہ زائرین کے گروپ کے ساتھ گیا تھا ہم لوگ مجدد الف ثانیؒ کے عرس میں شریک ہونے جا رہے تھے وہاں کچھ ایسے واقعات سے پالا پڑا کہ آنسو روکنا مشکل ہو گیا ہمیں وہاں حجروں میں ٹھہرایا گیا تھا ہم نے بستر زمین پر بچھائے ہوئے تھے ہمیں وہاں ایک صاحب ملنے آئے مشرقی وضع قطع، انہوں نے اپنا تعارف لکڑی کے کاروبار سے بتایا مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے پتہ چلا کہ آپ بھی تشریف لائے ہوئے ہیں سوچا آپ کی زیارت کر لوں میں شاعر ہوں اور یہ میرا نام ہے پھر خود ہی کہنے لگے اجازت ہو تو چند شعر آپ کی نذرکروں اور پھر اجازت لیے بغیر انہوں نے ترنم سے اپنا بے وزن کلام سنانا شروع کر دیا،اُن کا کلام اتنا بے سُرا تھا کہ میں مرو تاً بھی داد نہ دے سکا بعد میں پتہ چلا کہ اُن کا تعلق Indian Intelligence سے تھا ۔میں رات کو سگریٹ پینےکیلئے حجرے سے باہر نکلا اُس وقت رات کے دو بجے تھے اور وہ شاعر صاحب ایک تنور پر بیٹھے اونگھ رہے تھے پھر اگلے دن ہم وہ کنوئیں دیکھنے کیلئے بس میں بیٹھےجہاں مسلمان لڑکیوں نے ہندوؤں کی وحشت سے بچنےکیلئے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دی تھیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ پانی کنوؤں سے باہر آ گیا تھا۔ تو بس میں سوار ہونے کے دوران میں نے دیکھا کہ وہ شاعر صاحب بھی بس میں سوار ہو رہے تھے۔ بہرحال ہم اس گاؤں میں پہنچے تو ایک کنواں بند پایا۔ دو کنوئیں کھلے ہوئے تھے مگر ان میں پانی نہیں تھا۔ ان کنوؤں اور ساتھ والے گاؤں کے درمیان ایک دیوار تھی اور اس طرف عورتوں کی ایک بڑی تعداد ہمیں دیکھنے کیلئے کھڑی تھی۔ ہمارے قافلے کے سالار نے جب ان گمنام لڑکیوں کیلئے دعائیہ الفاظ کہنے شروع کیے تو ہم سب کی قمیضیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ اس دوران دیوار کی دوسری طرف سے ایک چیخ کی آواز آئی۔ یہ ایک عورت تھی جو چیخیں مارتے ہوئے عورتوں کے ہجوم سے چیختی ہوئی باہر نکل گئی۔یہ یقیناً ان عورتوں میں سے تھی جو درندوں نے اپنے گھروں میں رکھ لی تھیں۔

کوئی فیصل آباد کا ہے ؟ہم جن حجروں میں قیام پذیر تھے وہاں ایک عورت باآواز بلند ہم سے پوچھ رہی تھی کہ آپ میں سے کوئی فیصل آباد کا ہے وہ عورت یقیناً ان عورتوں میں سے تھی جو فسادیوں کے قبضے میں آ گئی تھیں وہ بھی حجرے میں تھی اور یہی پوچھتی رہی کہ آپ میں سے کوئی فیصل آباد کا ہے مگر ہم میں سے کوئی فیصل آباد کا نہیں تھا یہ عورت یقیناً اس وقت کے لائل پور کی مکین تھی اور جاننا چاہتی تھی کہ اگر کوئی فیصل آبادکا ہے تو اپنی فیملی کا حال احوال اس سے پوچھے اور فیصل آبادواپس جا کر اس کے گھر والوں کو بتائے کہ آپ کی گم شدہ بیٹی انڈیا کے فلاں گاؤں میں ہے ۔

واپسی کا سفر، جب ہم لوگ حضرت مجدد الف ثانی ؒ جو ہمارے خاندان کے شاگردوں میں سے تھےکے عرس کے اختتام پر واپس لاہور کیلئے روانہ ہوئے تو لاہور روانگی سے قبل امر تسر میں ایک مسلم تنظیم نے ہمارے لئے ہائی ٹی کا اہتمام کیا ہوا تھا میں ایک بات بتانا بھول گیا کہ حجروں میں قیام کے دوران ایک نوجوان سکھ لڑکے نے مجھ سے معانقہ کے دوران میرے کان میں آہستہ سے کلمہ طیّبہ سنایا میں سمجھ گیا کہ یہ کسی مسلمان عورت کا بیٹا یا پوتا ہے جسے کسی نے اپنے گھر میں ڈال لیا تھا اور اس بچے کو چوری چھپے اسلام سے متعارف کراتی رہی تھی۔

امرتسر میرا گھر۔ میری پیدائش امرتسر کی ہے اور اپنے گھر والوں سے امرتسر کا ذکر اتنے تواتر سے سنا تھا کہ یہ شہر میرے دل میں سما گیا تھا۔ میں نے قافلہ سالار سے کہا میں اپنے دادا کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے جانا چاہتا ہوں انہوں نے کہا جاؤ مگر بہت جلدی آ جانا یہاں صرف ایک گھنٹے کا قیام ہے۔ ہمارے اس قافلے میں ایک مجید صاحب بھی تھے جو امرتسری تھے اور اس شہر کے چپے چپے سے واقف تھے ہم نے رکشا لیا اور مجید صاحب مجھے سیدھے اس مسجد میں لے گئے جہاں دادا جان مفتی غلام مصطفیٰ کا مقبرہ تھا۔ہم نے جلدی جلدی فاتحہ پڑھی اور واپس آگئے مگر دیکھا تو سب زائرین بسوں میں بیٹھ چکے تھے صرف ہمارا انتظار ہو رہا تھا میں بس میں سوار ہونے لگا تو خفیہ محکمے کے ایک افسر نے مجھے روک لیا میں نے اسے کہا کہ مجھ سے کچھ پوچھنے سے پہلے اس رکشے والے کو روک لو اور اس سے پوچھو ہم کہاں گئے تھے اس نے رکشے والے سے تصدیق کرائی اور پھر مجھے پوچھنے لگا ۔’’مہاراج آپ کہاں گئے تھے؟ ،میں نے کہا اپنے دادا جان کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئےگیا تھا اسکے بعد کے مکالمے آ پ ذیل میں ملا حظہ فرمائیں۔ آپ کا نام ؟عطاء الحق قاسمی آپ کہاں گئے تھے ؟اپنے دادا کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے گیا تھا آپ کا نام ؟بھئی بتایا تو ہے عطاء الحق قاسمی یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا اس کا خیال تھا کہ ممکن ہے اس کے منہ سے سچی بات نکل جائے بہرحال آخر میں اس نے مجھے بس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی اور خود زائرین کی دوسری بس میں سوار ہو گیا اٹاری پہنچ کر میں بس سے اترا تو وہ پھر سامنے کھڑا تھا ۔’’کہاں گئے تھے، آپ کا نام اور کہاں گئے تھے کی تکرار کے دوران اس کی نظر میرے قلم پر پڑی کہنے لگا ‘‘مہاراج قلم تو خوبصورت ہے! میں نے جیب سے قلم نکالا اور اسکے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا’’مہاراج آپکی نذر ؟ اس نے فٹا فٹ وہ قلم میرے ہاتھ سے تقریباً چھینا اور اسکے بعد میری جان چھوڑ دی ،ظالما ! اپنی کوئی خواہش شروع ہی میں بیان کر دی ہوتی تو تمہیں بار بار آپکا نام آپ کہاں رہتے ہیں کہاں گئے تھے کی تکرار تو نہ کرنا پڑتی۔

نوٹ: گزشتہ کالم کےایک فقرے’جب جنرل ضیاالحق کا مارشل لا لگا اس وقت میری عمر غالباً سترہ سال تھی‘میں دراصل جنرل ایوب خان کا نام تھا، سہواً جنرل ضیاالحق شائع ہوگیا۔

تازہ ترین