سکندر یونانی نے ہزاروں سال پہلے پنجاب فتح کیا تھا یا نہیں تاریخی طور پر متنازعہ ہے مگر گلگت بلتستان کے اس سکندر نے محبت سے واقعی پنجاب کو فتح کر لیا سکندریونانی نےتوپ و تفنگ، خفیہ ہتھکنڈوں اور حیلوں بہانوں سے پنجابی پورس کو زیر کرنے کی کوششیں کیں اور پھر پورس ہی کو دوبارہ بادشاہ بنا کر واپس مڑ گیا وُہ جب واپس گیا تو بیمار تھا یا زخمی اس بارے میں تاریخ متضاد ہےلیکن یہ واضح ہے کہ پنجاب میں ایسا کچھ ہوا کہ اس کے ارادے ٹوٹ گئے وُہ آگے نہ بڑھ سکا اور پھر وہ راستے میں ہی جان ہار بیٹھا ۔ہمارا سکندر، جی ایم سکندر اکیلا بطور طالبعلم پاکستان کے چھوٹے سے گاؤں شگر سے لاہور آیا پنجاب یونیورسٹی میں پڑھا یہیں سے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور پھر سول سروس میں آگیا۔ اس سکندر کے پاس ہتھیار نہیں تھے میٹھی زبان، مسکراتا چہرہ اور عاجزی تھی آج جب وُہ رخصت ہوا تو سول سیکریٹریٹ کے چھوٹے ملازم، ہر طرح کے سیاسی خیالات رکھنےوالے سیاسی کارکن اور معاشرے کے دردِ دل رکھنے والے سب اسکا جنازہ اٹھانے میں شامل تھے ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر ایک کے دل میں اداسی تھی کہ سب کا محسن، صلحِ کل اور مثبت سوچ والا چلا گیا۔
نوکر شاہی نے قیام پاکستان کے بعد سے جو وطیرہ اختیار کیا ہے وہ پبلک سرونٹ کا نہیں ایک علاقائی بادشاہ کا ہے دروازوں پرچوبدار، جسم میں اکڑ، زبان پر سختی اور تکبّر انکا علامتی نشان بن چکا ہے ا نکی جان عوامی خدمت میں نہیں پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں ہے انکے سیاسی خیالات ہر حکومت کے آنے اور جانے پر بدل جاتے ہیں دن کو رات اور رات کو دن بنانے والا عروج پاتا ہے اور حقیقت احوال بتانے والا راندہ درگاہ بنا رہتا ہے۔ انہیں کرسی اس قدر عزیز ہے کہ کسی کا جھوٹا احترام کرنے کی خاطر کھڑے ہونے کی اداکاری بھی کریں تو جھٹ سے پشت کرسی پر لگ جاتی ہے ہاتھ پورا تو ملانا انہیں گوارہ نہیں آدھا بھی ملا لیں تو دوسرے پر احسان ہوتا ہے۔ انکا سارا دن اتنا مصروف ہوتا ہے کہ کوئی غریب ملاقاتی باریابی نہیں پاتا اسے بھی جواب ملتا ہے کہ ’’صاحب میٹنگ میں ہیں‘‘ ایسوں میں جی ایم سکندر ایک فرشتہ تھا کبھی اسکے ماتھے پر شکن تک نہ دیکھی لوگوں میں آسانیاں بانٹتا تھا لوگوں کے دکھوں پر مرہم رکھتا تھا شائستگی، عجز اور انسانوں سے محبت اسکا شعار رہا۔ یہی وُہ وصف ہیں جن سے معاشرہ محروم ہوتا جارہا ہے۔جی ایم سکندر سے میرا تعارف زمانۂ طالب علمی میں ہی ہو گیا اپنے پیدائشی شہر جوہر آباد میں ہم دوستوں نے ایک چھوٹا سا پاکستان اسپورٹس کلب بنا رکھا تھا سال میں ایک آدھ ٹورنامنٹ بھی کروایا کرتے تھے ہمارے شہر کا سب سے بڑا افسر اسسٹنٹ کمشنر ہوتا تھا ایسے ہی ایک ٹورنامنٹ میں اسسٹنٹ کمشنر جی ایم سکندر کو مدعو کیا تو وُہ کشاں کشاں آئے۔ کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے مسکراتے ہوئے آئے اور مسکراتے ہوئے چلے گئے ایسا افسر اس وقت بھی عجوبہ تھا اور وُہ زندگی بھر بڑے سے بڑے عہدے پر جا کر بھی عجوبہ ہی رہا۔ میرا کوئی کالم پسند آجاتا تو نہ صرف فون پرپیغام بھجواتے بلکہ کال کر کے حوصلہ افزائی کرنا انکا معمول تھا۔
نوازشریف وزیراعظم اور غلام حیدر وائیں وزیراعلیٰ پنجاب تھے انہیں میری شکایت کی گئی کہ میں انکی جماعت اور حکومت کیخلاف لکھتا ہوں، میں اس وقت محکمہ تعلیم میں لیکچرار تھا جی ایم سکندر کو حکم دیا گیا کہ میرا ریکارڈ منگوا کر مجھے کہیں دور دراز پوسٹ کردیا جائے جی ایم سکندر نے بالواسطہ طور پر مجھے پیغام بھجوایا اور محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ دو تین بار وزیراعلیٰ کو کونے میں پڑا یہ لکھاری پھر یاد آیا تو انہوں نے جی ایم سکندر کو بلاکر کہا کہ یہ ہر وقت نوابزادہ نصر اللہ خان کے پاس بیٹھا ہوتا ہے اسے شہر سے باہر پھینکو۔ جی ایم سکندر وزیراعلیٰ کو ہاں ہوں کر کے ٹالتے اور فائل پیش کی نہ کوئی آرڈر پاس ہونے دیا پھر وہ وقت ٹل گیا نہ وائیں صاحب رہے اور نہ ان کی حکومت، جی ایم سکندر کی محبت مگر ہمیشہ قائم رہی۔جی ایم سکندر کا چوہدری پرویز الٰہی کیساتھ گہرا تعلق بن گیا تھا اور وہ زندگی کے آخری سانس تک ان سے دوستی نبھاتے رہے چوہدری پرویز الٰہی حالیہ دور میں جیل گئے تو میں نے انکی پیرانہ سالی اور صحت کی مشکلات پر ایک کالم لکھا۔ جی ایم سکندر نے وُہ کالم نہ صرف جیل بھجوایا بلکہ خود بھی چوہدری پرویز الٰہی کو اسکا متن پڑھ کر سنایا۔
بہرحال جی ایم سکندر تعلقات جوڑنے والے تھے توڑنے والے نہ تھے آج کل تو رسم یہ چلی ہے کہ تلخ زبان، الزامات اور جھوٹی کہانیاں بنا کر دوسرے کو زیر اور خود کو اوپر کر لیا جائے۔ جی ایم سکندر خود زیر ہو جاتے اور دوسروں کو اوپر کر کے خوش ہوتے۔پرانے صحافی ساتھی اور آج کے ٹاپ بیورو کریٹ نے جی ایم سکندر کے جنازے پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ آج جنازے میں شریک ہر شخص اسکا احسان مند تھا ہر غریب اور امیر آج اس احسان کا بدلہ چکانے لاہور سے کوسوں دور بحریہ ٹاؤن آیا تھا۔ یہ بھی کہا کہ اگر کوئی انسانوں سے محبت کرے تو پھر انسان اسکو اس احترام سے دنیا سے رخصت کرتے ہیں کہ دنیا یاد رکھتی ہے جی ایم سکندر کا جنازہ بھی ایسا ہی تھا وگرنہ عام طور پر افسروں کو انکے دوچار کولیگز، ذاتی ملازم اور خاندان کے لوگ ہی خاموشی سے قبر میں اتار کر آ جاتے ہیں۔
دراصل نوآبادیاتی دور میں بنائی گئی بیوروکریسی کا مقصدبرطانوی حکومت اور مقامی باشندوں کے درمیان پل کا سا تھا اُن میں برطانوی حکومت کا رعب داب انتظامی کنٹرول اور خوف برقرار رکھنا تھا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ افسر شاہی کے کردار کو تبدیل کرکے اسےواقعی پبلک سرونٹ بنایا جاتا مگر یہ کوتاہی دور نہ ہوئی اور مسعود محمود و عزیز احمد جیسے افسروں نے مشرقی پاکستان میں تفاخر اور تکبر کے رویّہ سے آقا اور غلام جیسا ماحول بنا دیا۔ نوکر شاہی میں آج بھی جی ایم سکندر آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور موٹی گردنوں والے عزیز احمد اکثریت میں ہیں۔ اس مسئلے کا حل برطانیہ، امریکہ اور دنیا بھر کے ممالک نے ایک ہی نکالا ہے کہ انتظامی سربراہی منتخب نمائندوں کی ہو اور افسر شاہی انکے ماتحت کام کرے۔ نئے صوبے بنا کر بھی نوکر شاہی اور ریاستی مشینری کا ذہن تبدیل ہونے کا امکان صفر ہے بہتر ہوگا کہ آئین کے آرٹیکل 240میں نئی قانون سازی کر کے مقامی حکومتوں کے نظام کو لازمی اور بااختیار بنایا جائے ہمارے آئین اور نظام میں صرف ایک خرابی ہے اور وُہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہے 18 ویں ترمیم نے اچھا کام کیا کہ اختیارات مرکز سے صوبوں کو منتقل کر دیئے مگر اب صوبے نئے آمر بن گئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی مالیاتی کمیشن فعال کرکے اختیارات اضلاع تک منتقل کئے جائیں دنیا بھر میں مقامی حکومت ہی 70فیصد حکومتی امور نبٹاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں صوبائی حکومتیں 99فیصد حکومتی امور سرانجام دیتی ہیں کام اور اختیارات کی زیادتی کی وجہ سے صوبے مناسب کارکردگی دکھا ہی نہیں سکتے نہ ان کے پاس جی ایم سکندر جیسے افسر ہیں جو عاجزی اور عوام دوستی سے لوگوں کے دل جیت لیں۔ اکثریت عزیز احمدوں اور مسعود محمودوں کی ہے جن کو ملیں یا دیکھیں تو احساس محرومی بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان کے دیر پا عوامی مسائل کا حل، مقامی حکومتوں یا بلدیاتی نظام میں ہے، یہی وُہ کمی ہے جو پاکستان میں احساس محرومی پیدا کر رہی ہے آئین میں آرٹیکل 240موجود ہے مگر یہ وضاحت طلب ہے اگر 27ویں ترمیم کے ذریعے کچھ تبدیلی لانا مقصود ہے تو پھرمقامی حکومتیں بااختیار بنائیں۔ جی ایم سکندر کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے تو گلگت اور بلتستان کو پاکستانی ہونے کا آئینی حق دیں اور بلدیاتی انتخابات کے ذریعے عوام اور علاقوں کو بااختیار بنائیں۔