سب سے پہلے تو ہاتھ اٹھائیں ان بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں ماؤں بہنوں بھائیوں بزرگوں کیلئے جو حالیہ بارشوں اور سیلابوں میں بے یار و مددگار آبی ریلوں اور ندی نالوں میں بہہ گئے ۔اللہ تعالی سے ان کی مغفرت کیلئے گڑگڑا کر دعا مانگیں۔ قادر مطلق سے ہم سب اپنے گناہوں غفلتوں کی معافی کیلئے التجا بھی کریں ۔اس حاکم حقیقی سے دل سے یہ التماس بھی کریں کہ ہم پر جو زمینی حکمران ہیں۔ جو ہماری قیادت کے دعویدار ہیں۔ جنہیں فلک نے تو خواجگی عنایت کی ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ بندہ پروری کیا ہے ۔اے قدیر و کبیر انہیں بھی ہدایت فرما کہ وہ ریاست کی حفاظت کیلئےاپنی حقیقی ذمہ داریاں پوری کریں ۔’’فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں ...خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے ؟‘‘سوشل میڈیا کا دور ہے ہر ثانیے کی خبر سب تک پہنچ رہی ہے یہ بھیانک مناظر سنے ضرور تھے دیکھے نہیں تھے۔ اب ہمت نہیں کہ دوبارہ دیکھیں۔
ہمارے صدر وزیراعظم وزرائے اعلیٰ کلیدی عہدوں پر براجمان سرکاری ملازمین بھی تو یہ ہولناک مناظر دیکھتے ہوں گے۔ کیا انکے دل پر کچھ گزرتی ہے۔ وہ کیسے چین سے بیٹھتے ہوں گے ۔اگر ان کے اندر کوئی باپ والی شفقت ہے، ماں والی ممتا ہے تو کیا انہیں کوئی پشیمانی کوئی ملامت ہوتی ہوگی کہ اتنی قیمتی جانیں وہ کیوں نہیں بچا سکے۔ کیا انکے ضمیر میں کوئی خلش ہوتی ہوگی کہ وہ پہلے سے کوئی تیاری کیوں نہیں کر سکے ۔وزیراعلیٰ کے پی کے کی یہ آئینی انتظامی سرکاری سیاسی سماجی اخلاقی ذمہ داری تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ انہیں پہلے سے کوئی اطلاع نہیں تھی۔گورنر کے پی کے نے کیا وزیراعلیٰ کو کوئی خط اس سلسلے میں لکھا؟ گورنر نے کیاصدر مملکت کو پہلے سے خبردار کیا ؟یہ جو 400سے زیادہ آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے ہیں،کسی ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے،کسی باپ کے بڑھاپے کا سہارا تھے ۔کسی بہن کے لاڈلے بھائی تھے۔ یہ اس عظیم وطن کے دست و بازو تھے۔ ہم پہلے سے ان کی زندگی کے حفاظت کے انتظامات کیوں نہیں کر سکے۔ اور ان کے مرنے کے بعد بھی افسوس تو کر سکتے تھے۔ پاکستانی پرچم صرف کے پی کے میں ہی سرنگوں کیوں ہوا۔ پورے پاکستان نے ان کا سوگ کیوں نہیں منایا؟ کاروباریوں نے ایک دن کیلئے بھی اپنا کاروبار بند کیوں نہیں کیا؟ ہم اتنے بے حس کیوں ہو گئے ہیں؟ چینلوں پر ڈرامے اشتہار اسی طرح چل رہے ہیں ،تقریبات رقص وموسیقی اسی طرح جاری ہیں۔ اتنے ہم وطنوںکیلئے غائبانہ نماز جنازہ کیوں نہیں ہوئی؟ بونیر سے صدائیں آ رہی ہیں:میں تو لرز کر رہ گیا ہوں۔ گورکن کم پڑ گئے ہیں،ہے کوئی قبر کھودنے والا ؟ کفن پورے نہیں پڑ رہے۔ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو کیا یہ انتظامات پہلے سے نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ جانے والے تو چلے گئے ۔جو ابھی ان علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کیلئے کیا انتظامات ہیں۔ ہم ان آفات کے مقابلےکیلئے پہلے سے تیاریاں کیوں نہیں کرتے۔ یہ زلزلے کی طرح اچانک کسی وارننگ کے بغیر نہیں آتی ہیں۔ ڈزاسٹر مینجمنٹ کی اعلیٰ سطحی قیادت اپنی جگہ ۔پہلے جو سول ڈیفنس کا محکمہ ہوتا تھا اس میں خدا ترسی انسان دوستی کا رضاکارانہ جذبہ زیادہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے ہم وطنوں کی مدد کیلئے از خود نکل آتے تھے۔ اب یہ محض سرکاری ملازمت رہ گئی ہے اور اس میں بھی غفلت اور کوتاہی ۔موسمیاتی تبدیلی کیلئے دنیا بھر سے خبرداری ہوتی رہی ہے۔ 1970ءسے تو خاص طور پر پاکستان کو باقاعدہ متنبہ کیا جاتا رہا۔
ہمارے سربراہان وزرا باقاعدہ ان میٹنگوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ عالمی اداروں سے فنڈز بھی جاری ہوتے رہے۔ 1980ءکی دہائی میں ہر حکومت کو باقاعدہ مطلع کیا گیا۔ 1992ءمیں برازیل میں ارتھ سمٹ ہوا۔ 28مارچ 1995ء میں برلن میں موسمیاتی تبدیلی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 11نومبر 2024 کوآذربائیجان میں ہونیوالی موسمیاتی تبدیلی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ اس سلسلے کی اقوام متحدہ کی 29ویں کانفرنس تھی۔ اسے سی ای او پی 29 ویںبھی کہا جاتا ہے۔ اب موسمیاتی تبدیلی کے وزیر مصدق ملک ہیں بہت فعال بہت گرم سخن۔انہوں نے بھی آذربائیجان، قطر کے اجلاسوں میں شرکت کی۔ یورپی کمیشن سے مذاکرات میں بھی شامل تھے۔ ان سے پہلے شیری رحمان صاحبہ یہ قلمدان سنبھالے ہوئی تھیں ۔انہوں نے مارچ 2023 میں امریکہ میں پاک امریکہ موسمیاتی تبدیلی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ جنیوا میںاسی سلسلے میں ایک اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ پھر لندن میں جون 2025 میں بھی ایک اجلاس میں شرکت کی ۔اس اعلیٰ سطحی خبرداری اور بیداری کے باوجود ہم 400 سے زیادہ ہم وطنوں کی جانیں کیوں نہ بچا سکے ۔یہ بھی ہر اجلاس میں بتایا گیا کہ موسم بدلنے ،گرمی زیادہ ہونے سے جن ملکوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں ان میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے ۔1970 سے اب تک جتنی فوجی، سیاسی ،نیم فوجی حکومتیں آئی ہیںان کے علم میں یہ خطرات تھے وہ کیا انتظامات کرتی رہیں اور پاکستانیوں کو اتنی تعداد میں سیلاب کی نذر ہونے سےبچانے کے کیا اقدامات کر سکیں ۔کے پی کے میں 15 سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے ۔اس نے اس تسلسل کی حکومت میں پاکستانیوں اور اپنے ووٹروں کو لقمہ اجل ہونے سے کیوں نہ بچایا ؟اس سال تو اپریل سےہی بہت زیادہ تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ گلیشیئر پگھلنے والے ہیں۔ پاکستان کے پاس چھوٹے بڑے 13 ہزار سے زیادہ گلیشیئر بتائے جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالی کی بہت بڑی عنایت ہے دریاؤں کو سیرابی انہیں گلیشیروں سے ملتی ہے۔ لیکن ہم سے رحمتیں سنبھالی نہیں جاتیں۔ انسانی زندگی کی کوئی قدر ہے اور نہ فطرت کی مہربانیوں پر اللہ کی شکر گزاری ۔اقبال کہہ گئے ہیں’’فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی...یا بندہ صحرائی یا مرد کہستاني‘‘صحرائیوں اور کوہستانیوں کے ساتھ ہم جو سلوک کرتے ہیں تاریخ کے اوراق اس کی شہادت دے رہے ہیں۔ اب آسمان اور زمین ہم سے پوچھ رہے ہیں کیا حالیہ سیلابوں سے ہونے والی ہلاکتوں سے ہم بحیثیت قوم کوئی سبق سیکھ رہے ہیں؟ کہیں میڈیا پر یا یونیورسٹیوں میں مستقبل کے حوالے سے سیمینار ہو رہے ہیں۔ کیونکہ ہمیں خبردار ہونا چاہیے کہ ایک طرف صاف پانی کے ذخیرے :گلیشیئر پگھل کر ختم ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف موسمیاتی تبدیلی اورگرمی کی وجہ سے نئے گلیشیئر جنم نہیں لے سکیں گے۔ پانی کا مسئلہ پہلے ہی سنگین ہے۔ اب اور زیادہ شدت اختیار کرے گا ۔کیا اب بھی ہم ماضی کی طرح کشکول لے کر پھر امداد مانگنے نکل پڑیں گے یا کوئی مستحکم انتظامات کریں گے۔ابھی ابھی کراچی میں بھی موسلا دھار بارشیں شروع ہو گئی ہیں۔ جگہ جگہ سڑکوں پر ،بازاروں میں پانی جمع ہو رہا ہے اللہ تعالی خیر کرے۔ جب ان بڑے شہروں میں بھی ہم لوگوں کی املاک کی حفاظت نہیں کر پاتے تو ان دشوار گزار پہاڑی مقامات کا تو ذکر ہی کیا۔