مستقبل کو کبھی اجازت نہ دیں کہ آپ کو پریشان کرسکے ۔مستقبل جب بھی وارد ہوگا،اگر ایساہونا ہوا،توآپ اس کا سامنا اسی عقلیت کے ہتھیار سے کر لیں گے جسکے ساتھ آپ حال سے نبردآزما ہیں ۔
( مارکس آریلیس )
بدقسمتی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم جن اثاثوں کو مسلسل دائو پر لگاتے آئے ہیں وہ اس یاد گار دن کی نظریاتی اسناد ہیں ۔ انھیں بیرونی ممالک کی ہم پر مسلط کردہ احمقانہ مجبوریوں کےتابع کردیاگیا۔ قومی مفاد کی جگہ ذاتی فوائد حاصل کرنےکی پالیسیوں پر عمل کرکے انھیں بھی دائو پر لگا دیا ہے ۔ آج ہم ایک مجبور و مقہور ریاست ہیں جو اتحاد اور ہم آہنگی سے وجود میں آنیوالی قومی کاوش سے وسائل اکٹھے کرنے کی بجائے بیرونی دنیا سےحاصل کردہ امداد پر گزارہ کرتی ہے ۔ ایسے وسائل طاقت کی بجائے کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔
آزادی کے ثمرات سےاستفادہ کرنے کیلئے قائد محترم کی گیارہ اگست 1947ءکو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر، اور بہت سی دیگر، کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ ان میں وہ بھی شامل ہے جس میں آپ پشاور میں سرکاری افسروںسے مخاطب تھے۔ انھوں نے بہت واضح اوردوٹوک الفاظ میں بتایا کہ نو زائیدہ ریاست کو کن راہوں پر چلنے کی ضرورت ہے ۔
بابائے قوم نے آزادی کی ہمہ گیریت کواجاگرکرتے ہوئے کہا کہ عقیدے، ذات ، رنگ ، نسل اور مذہب سے قطع نظر تمام شہری برابر ہیں ۔ آپ نے دستور ساز ادارے کی خود مختاری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسکے رہنمائوں کے کندھوںپر اسکے دفاع کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ آپ نے رشوت اور بدعنوانی کو لعنت قرار دیا اور ان برائیوںکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ پشاور میں سرکاری ملازموں سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان نے انھیںتلقین کی کہ وہ کسی کا دبائو قبول نہ کریں اور ریاست کے ملازم بن کر اپنے فرائض سرانجام دیں۔ وہ حکومت وقت کے نہیں،ریاست اور عوام کے ملازم ہیں ۔
گزشتہ عشرے کےدوران پیش آنیو الے واقعات کا معروضی تجزیہ بتاتاہے کہ انہی اقدار کو ذاتی مفاد کیلئے دائو پر لگا دیا گیا ۔ذاتی مفادات کی سیاست کرنے کے مذموم عمل کے ذریعےآزادی کے تصور، شہری اور دیگر خدمات کے تقدس اور ریاست کی خودمختاری کے تحفظ کی ضرورت کو حکمران اشرافیہ اور ان کے حواریوں کی ذاتی دولت اور طاقت بڑھانے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جہاں ریاست کے معاشی استحکام اور اقوام عالم میں اسکی حیثیت کوزک پہنچی ہے ، یہ عوام ہیں جنہوں نے ایک طرف اپنی عزت و وقار اور دوسری طرف ترقی کے امکانات کو کھو کر ان بداعمالیوں کا خمیازہ بھگتا ہے ۔
اس گراوٹ کی اصل وجہ لوگوں کی آزادی فکر کو محدود کرنے کیلئے غیر ضروری پابندیاں لگانا ہے۔ فکری سرگرمی اور مشغولیت ایسےمواقع پیدا کرتی ہیں جو قوموں کیلئے اپنی حقیقی تقدیر کو پہچاننے اور اس تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ وضع کرتی ہیں ۔ بدعنوان حکمران اشرافیہ عوام کو بے دماغ بھیڑوں کی طرح ہانک کر انکی فکری اٹھان کاگلا گھونٹ دے تو قومی منظر نامہ نظریات اور عقلی حرکیات سےتہی دامن ہوجاتا ہے ۔اس ماحول میںجمود کا تعفن گہرا ہوجاتا ہے۔
ضروری ہے کہ اس طرح کی فکری سرگرمی کی اجازت دی جائے چاہےاسکے نتیجےمیں کئی ایک بیانیےوجود میں آجائیںجو ایک دوسرے سے مختلف ہوں ، لیکن ہر کسی کی اپنی ایک اہمیت ہوگی ۔ جب مقصد واضح ہوتو اختلاف بھی فکری عمل کا جوہربن کر ابھرتاہے۔ہم ان پر سنگ باری نہیں کرتے جن سے ہمارا اختلاف ہو ۔ ان پر بے جا الزامات نہیں لگاتے۔ انھیںمورد الزام نہیں ٹھہراتے، انہیں غدار قرار نہیں دیتے ہیں ، انہیں سماجی دھارے سے الگ ہونے پر مجبور نہیں کرتے۔ ان کا حق ہے کہ وہ بھی دیگر کی طرح ریاست کےآگے بڑھنےمیں اپنا کردار ادا کریں ، چاہے طریقہ مختلف کیوں نہ ہو۔
اگرچہ یہ ہماری قومی زندگی کی برسوں سے ایک مستقل روایت رہی ہے، لیکن ہم نے حال میں ان پابندیوں کے دائرہ کار میں تیزی سے اضافہ دیکھا ہے جس نے ہماری فکری ترقی اور اسکے نتیجے میں قومی نجات کے امکانات کو مسدود کر دیاہے۔ماحول میں خوف کی پرچھائیاں واضح محسوس ہوتی ہیں ۔ اس کی وجہ سےلوگ مجبور ہیں کہ یا تو کہیں بند ہو کربیٹھ جائیں اور اندھیرا چھٹنےکا انتظار کریں یا اپنے تمام تر اثاثے سمیٹ کر ملک چھوڑنے کا چارہ کریں ۔ گزشتہ تین برسوں میں چالیس لاکھ افراد کا ملک سے چلے جانا ایک وسیع ہجرت کے مترادف ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں امید کا کس قدر قحط ہے ۔ کوئی ریاست بھی ایسی مایوسی کی فضا میں خوش حال نہیں ہو سکتی ۔
اس عمل میں عقل اور معقولیت مرکزی شکار بن جاتے ہیں۔ جیسے جیسے دنیا تیزی سے منقسم ہوتی جا رہی ہے، ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ایک پائیدار پلیٹ فارم کی تعمیر کیلئے عقلیت پسندی اور دانشمندی کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ لیکن ہمیںیہاں اسکےبرعکس ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اختلاف رائے کو قومی مفادات کیخلاف سمجھا جاتا ہے چاہےاس کا محرک پُر خلوص قومی فکر کیوں نہ ہو۔ ایسے فرد کے ساتھ سختی سےنمٹا جاتا ہے ۔ خطرناک سرعت سےبنائےگئے قوانین کے ذریعےانھیں جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔آزاد عدلیہ کاادارہ پہلےہی جاں بلب ہے ۔ ملک میں انصاف کی فراہمی تدفین کےمراحل میں ہے ۔
یہ حالات سیاسی استحکام کیلئے سازگار نہیں۔ اس صورت حال نے معاشی ترقی کے امکانات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ہم بین الاقوامی اداروں کی حمایت اور دوست ممالک کی امداد پر تکیہ کرتے ہیں۔ بیرونی ذرائع پر اس شرمناک انحصار کو کم کرنے اور بالآخر ختم کرنے کے اقدامات کرنے کی بجائے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لعنت بڑھ رہی ہے۔
ہمیں مبادیات کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ نہ صرف ہم اپنے بنیادی نظریات کو بھول چکے ہیں،ہم نے ایک دیوقامت ڈھانچہ بنایا ہے جو مستعار ستونوں پر ٹکا ہوا ہے۔ اندرونی ہم آہنگی اور اتحاد کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ اس کیلئے حقیقی کوشش کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کےانہدام کے خدشات بے بنیاد نہیں۔ گورننس کے طریقہ کار میں جامع نظر ثانی درکارہے۔ مستحکم اور خود انحصار ریاست کا مقصد جبری اقدامات سے فکری خلا کو مسدود کر کے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں معقولیت کی طاقت کو بروئےکار لانےکی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو امن اور سلامتی کے ماحول میں کام کرنے کیلئے اکٹھا کیا جا سکے ۔ وہ ماحول جس میں ان کے سر پر کوئی تلوارنہ لٹکی ہو۔ ضروری ہے کہ ان پر دہشت گرد اور غدار کا لیبل لگا کر انکی توہین کرنےکا سلسلہ ختم کیا جائے۔ وہ نہیں ہیں۔ وہ صرف اختلاف کااپناحق استعمال کرتے ہیں۔
(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)